عدم محض اور لاشی ٔ فقط، اس کو اﷲ تعالیٰ نے اپنے نورِ وجود سے منور فرمایا ، موجود ہوگیا ، بقا صرف اﷲ کی ذات وصفات کو ہے ، انسان کی نہ ذات باقی ، نہ صفات باقی ، نہ احوال باقی ، سب متغیر ، سب فانی ، ہر روز ایک نیاحال ، ہر دن ایک نیا مقام ، دل کبھی اِدھر کبھی اُدھر ، ہاں اگر کوئی اپنی صفات کو ، اپنی ذات کو ، اپنے ارادوں اور خواہشات کو بارگاہِ عالی میں قربان کردے ، ان کی مرضیات کا تابع ہوجائے ، اپنی آرزوؤں میں گرفتار نہ رہے ، تمناؤں کی قید سے آزاد ہوجائے ، پھر اس کی حالت میں تلون باقی نہیں رہتا ، استقامت پیدا ہوجاتی ہے ، جسے حضراتِ صوفیہ کی اصطلاح میں ’’تمکین ‘‘ کہتے ہیں ، اب اگر کچھ تغیر ہوتا ہے تو یہ کہ دنیا کی تنگنائے سے نکل کر عالم غیب کی فضاؤں میں پرواز کرتا رہتا ہے ، دنیا کی کوئی زنجیر اس کے پاؤں میں نہیں رہ جاتی ، انسان کو حق تعالیٰ نے اپنے اوصاف وکمالات کا مظہر بنایا ہے ، اس آئینہ میں اگر انھیں کے اوصاف وکمالات کا مسلسل ظہور ہوتا رہے تو بلا شبہہ آئینہ کے لئے معراجِ کمال ہے ، لیکن یہ تو اس پر طرح طرح کی کالک لیپ پوت کر اس کو خراب کردیتا ہے ، اس کو صیقل کرتے رہنا چاہئے ، ہر وقت اس کی فکر رہنی چاہئے ، اپنے نفس اور قلب کا جائزہ لیتے رہنا چاہئے کہ اس پر کوئی زنگ نہ لگنے پائے ، اگر لگ جائے تو اسے جلد سے جلد توبہ کے پانی سے دھل دھلا کر پاک وصاف کردینا چاہئے ، ورنہ گناہوں کا زنگ اگر قلب پر لگا رہ جاتا ہے تو وہ قلبی صلاحیتوں کو کھانا شروع کردیتا ہے ، اور پھر اس میں مزید معاصی کی رغبت پیدا ہوجاتی ہے ، اور آہستہ آہستہ وہ قلب ، قلب نہیں رہ جاتا ، صرف زنگ بن کر رہ جاتا ہے ، حق تعالیٰ فرماتے ہیں : کَلَّا بَلْ رَانَ عَلیٰ قُلُوْبِھِمْ مَّاکَانُوْا یَکْسِبُوْنَ ، ان کے اعمال ان کے قلوب پر زنگ بن گئے ۔
یہ حالت بڑی مایوس کن ہوتی ہے ، ایک حدیث بھی سنئے !