سبحان اﷲ! یہ ہے وہ ترشی جو نشۂ دنیا اتارکر دوسرا نشہ چڑھا دیتی ہے ، کاش ہمیں بھی کوئی ایسا ہی کٹیا باسی مل جاتا۔
بہر کیف ! میں کہاں بہک گیا ، مولانا عبد الرب صاحب کی زبانی آپ کی پریشانی کا علم ہوا، آج کل روزانہ ایک مخصوص وقت پر آپ کے لئے بارگاہِ حق میں دست بدعاء ہوتا ہوں ، معلوم نہیں ادھر کا فیصلہ کیا ہے ، ہم آپ ان شاء اﷲ سوجان سے راضی ہیں ، مقصود ان کی رضا ہے ، باقی سب ہیچ ہے۔ ؎
ما ہیچ نداریم، غم ہیچ نداریم دستار نداریم ،غم پیچ نداریم
لیکن افسوس میں تو دستار میں پھنساہواہوں ، پھر غم پیچ سے کیونکر آزاد ہوسکتا ہوں ۔ اﷲ تعالیٰ نجات بخشے۔
سبق روک کر بہت جلدی جلدی یہ سطریں تحریر کی ہیں ، فروگذاشت ہوگئی تو معاف فرماویں ۔ شاید جمعرات کو گھرکی جانب حاضری ہو۔ والسلام
اعجاز احمد اعظمی
۱۷؍ ربیع الآخر ۱۴۰۶ھ
(۱) والد صاحب نے حضرت مولاناکے پاس گاجر کا حلوہ بھیجا تھا،چند دنوں کے بعدحضرت مولانا نے والد صاحب کے پاس سورن کا اچار بھیجا ، اسی کی طرف اشارہ ہے۔(ضیاء الحق خیرآبادی)
٭٭٭٭٭
بخدمت گرامی قدر جناب حاجی عبد الرحمن صاحب ! زیدمجدہم
السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ
ادھر عرصہ سے آپ کی کوئی خیریت نہیں معلوم ہوئی ، دل لگا رہتا ہے ، یوں تو حق تعالیٰ جس حال میں رکھیں کرم ہی کرم ہے ، انسان اصل کے اعتبار سے کیا ہے ؟