۱۷؍ صفر ۱۴۰۵ھ
٭٭٭٭٭
محترم ومکرم جناب حاجی صاحب ! زیدمجدہم
السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ
مزاجِ گرامی !
آپ شیریں ہیں ، آپ کا تحفہ شیریں ! اور میں جیسا ہوں ، ویسا ہی تحفہ ارسال کررہا ہوں ۔(۱ ) خدا کرے آپ ترش رُو نہ ہوں ، لیکن یہ نہ پڑھئے گاکہ ؎
یہ وہ نشہ نہیں جسے ترشی اتاردے
نشہ اتارنے والی ترشی یہ نہیں ہے ، وہ اہل اﷲ کے پاس ملتی ہے۔
ایک سادھو اپنی کٹیا میں بیٹھاہوا تھا ، اس نے اپنے چیلے سے کہا کہ بیٹا بھنگ لاؤ، پینے کا وقت ہوگیا ہے ، رات آدھی سے زیادہ بیت چکی تھی، چیلے نے کہا کہ گروجی تھیلا خالی ہے، پہلے سے خیا ل نہیں ہوا۔ گرو نے پکار کر کہا، کہیں سے لاؤ، مجھے ابھی چاہئے ، جلد کہیں سے لاؤ، چیلا بھاگاہوا جنگل میں گیا ، دور ایک کٹیا نظر آئی ، اس میں ایک دھیما چراغ جل رہا تھا ۔ یہ حضرت شیخ نصیر الدین چراغ دہلوی قدس سرہٗ کی کٹیا تھی، چیلے نے ہانک لگائی کہ یہاں بھانگ ملے گی ، حضرت بولے یہاں بھانگ نہیں ملتی ولایت ملتی ہے ، اس نے کہا وہی دیدو، فرمایا نیچے ایک ندی ہے وہاں نہاکر آؤ، وہ نہا کر آیا، حضرت نے کلمہ پڑھاکر ایسی توجہ دی کہ وہ بیخود ہوگیا ، اپنے گرو کے پاس اسی نشہ میں مخمور چلا گیا، گرو نے دیکھتے ہی للکارا، ارے نالائق میں نے تو تجھے لانے کے لئے بھیجا تھا، تو تو پی کر آرہا ہے ، اس نے کہا گروجی چلو تمہیں بھی پلادوں ، لے گیا اور اسے بھی وہی چیز پلادی۔