مسلمانوں کا قصہ کافروں کے مثل نہیں ہے ، وہ اوّل سے باغی ہیں ، ان کی سزا متعین ہے ، ممکن ہے دنیا میں ان پر مصائب وبلایا کا نزول نہ ہو ، لیکن مسلمان اول سے طاعت گزار ہے ، یہ اگر منہ موڑے گا تو ضرور طمانچہ پڑے گا ، لیکن وائے برما کہ یہ بھی سمجھنے سے قاصر ہیں کہ یہ طمانچے پر طمانچے کیوں پڑ رہے ہیں ، ایک طمانچہ لگا ، ذرا تلملائے اور سہلایا اور کام ختم !
کاش سب مل کر اپنے پروردگار کو خوش کریں ، عبادات سے ، اخلاق سے ، ذکر سے ، تلاوت سے ، دعا سے ، آپس کے احسان سے ، ہمدردیٔ خلائق سے ، لیکن کم حسراتٍ فی بطون المقابر ، کتنی حسرتیں ہیں جو قبر کے شکم میں جاپہونچیں ، اختلاف اور لڑائی جھگڑا ہمارے لئے سب سے آسان کام ہے ، اخلاقِ حمیدہ سے کوسوں دور ، چار گھر کا دیہات ہو وہاں بھی لڑائی دنگا ، وسعت ظرف ، حوصلہ مندی ، اپنے اوپر مشقت جھیل لینا ، ایثار کرنا ، دوسرے کی نعمتوں سے خوش ہونا ، یہ سب مفقود ! عداوت ، حسد ، بغض ، تنگ نظری ، پست حوصلگی ، مفاد پرستی ، خود غرضی ، یہ سب موجود ! کہاں یہ صفاتِ خبیثہ اور کہاں رحمت خداوندی ، اﷲ پاک ہے ، پاک ہی کو پسند کرتا ہے ، ناپاکی سے بری اور بیزار ہے ، ہم نے پاکی اور ناپاکی کو مخلوط کرکے ایک نیا مزاج بنالیا ہے ، محض نجاست ہوتو اسے کوئی نہیں دھوتا ، سوکھنے کے بعد اس کو محض جلادیا جاتا ہے ، لیکن پاک چیز ناپاک ہوجائے تو اسے رگڑ رگڑ کر ،پتھر پر پٹک پٹک کر ، ڈنڈے سے مار مار کر ، پانی میں کھولا کھولا کر ، تیز سے تیز صابن لگالگا کر نجاست سے علیٰحدہ کیا جاتا ہے ، ایمان ویقین ایک پاک اور مقدس چیز ہے ، ا س سے انسان بالکل پاک ہوجاتا ہے ، پھر گناہوں کی نجاست اس کو نجس کر ڈالتی ہے ، اگر اس کو اسی حالت پر چھوڑ دیا جائے تو آہستہ آہستہ وہ نجاستِ محض بن کر رہ جائے گا ، دیکھئے حق تعالیٰ کا ارشاد ہے :