سنئے کہ وہ بات کیا ہے ؟ وہ بات محض اتنی ہے کہ ’’ہم سچے مومن نہ رہے ‘‘ بظاہر کتنا چھوٹا سا جملہ ہے ، لیکن سوچئے ! اسی ایک جملہ میں درد کی پوری داستان سمٹی ہوئی ہے ، ہماری حالت یہ ہے کہ اگر ہم سے صحیح اور سچی خالص ایمان کی بات کہی جائے تو بری لگے اور اگر اس میں بہت کچھ الا بلا ملا کر سنایا جائے تو بصدق دل سنیں ، اﷲ کی اطاعت اور رسول کی فرمانبرداری سے زیادہ مشکل ہمارے لئے کوئی چیز نہیں ، جتنی زیادہ مار پڑتی ہے اتنی ہی زیادہ ہماری غفلت بڑھتی ہے ، ہنگامہ وفساد کے مواقع پر بعض جگہوں پر مساجد ضرور آباد ہونے لگتی ہیں ، لیکن اس آبادی کی عمر کتنی ہوتی ہے ، اور پھر یہ بھی دیکھئے کہ اسی موقع پر فائدہ چاہنے والے فائدے کے حصول کی کیسی کیسی راہیں نکال لیتے ہیں ، کسی کا گھر جلتا ہے ، اور کوئی اس آگ پر اپنی ہانڈی چڑھا کر خوش ہوتا ہے کہ بلا سے کسی کا گھر جلا مفت میں ہمارا کھانا تو پک گیا ، آپ مجھ سے زیادہ حالات سے واقف ہیں ، میں تو فقیرِگوشہ نشین صرف کلیات سے علم وواقفیت کا تعلق رکھتا ہوں ، آپ تو میدان میں ہیں ، تمام جزئیات آپ کی نگاہوں کے سامنے سے گذرتی ہیں ، بتائیے کسی کا گلا کاٹا گیا اور کوئی گوشت کا لوتھڑا اس کے تن بے جان سے کاٹ کر لے جارہا ہے کہ اپنا پیٹ بھروں گا ۔
کون ہے جو محض اﷲ کے واسطے اپنے نفس کی خواہشات سے دستبرداری اختیار کرتا ہے ، پھر دیکھئے کہ ہم معاصی میں ، اور صرف معاصی میں نہیں بلکہ شرک وبدعت میں کس درجہ مبتلاء ہیں ، گناہوں کا ناچ تو ہر وقت ہوتا رہتا ہے ، شرک وبدعت کا منظر کسی بھی سچی یا جھوٹی مزار پر دیکھاجاسکتا ہے ، اور یہ سب کون کرتا ہے ؟ وہی جس کا دعویٰ ہے کہ اس کا ایمان خدا پر ہے اور اس کا دامن رسول اﷲ اکے دامن اقدس سے بندھا ہوا ہے ، سوچئے رُخ کدھر ہے ، رفتار کس طرف ہے ، اور منہ کے بول کیا ہیں ؟