بھرتا ہے ، جب وہی درندے اچھی طرح ہماری ہڈیاں توڑ چکتے ہیں ، ہماری کھالیں ادھیڑ لیتے ہیں اور شکم بھر کر ڈکاریں لینے کی تیاریاں کرنے لگتے ہیں تو ہم اپنی عرضیاں ، اپنی درخواستیں لے لے کر ان کے پاس دوڑتے ہیں اور پھر وہ فریبانہ ہمارے زخموں پر مرہم رکھتے ہیں اور جلے ہوئے کو بجھانے کے لئے ہاتھوں میں دوا اور پانی لے کر آتے ہیں ، اور ہم پر احسان کرتے ہیں ۔ کتنا دردناک منظر ہے ۔
مسلمان جو کہ دنیا کی ہدایت ورہنمائی کا ذمہ دار بنایا گیا تھا ، آج وہ خود دوسروں کی راہ تک رہا ہے ، کلیجہ منہ کو آتا ہے ، جگر خون ہوتا ہے ، ایسی بے بسی کہ نہ جان کا ٹھکانا ، نہ مال کی حفاظت ، نہ آبرو کا بچاؤ ، آخر آدمی کہاں جائے اور کیا کرے ، جہاں کہیں فساد ہوتا ہے ، وہاں کا حال تو مت پوچھئے ، جہاں تک اس کی خبر پھیلتی ہے ، منہ نکالنا دشوار ہوجاتا ہے ، جیسے مسلمان کوئی مجرم ہے جسے اس ملک کی پشت پر زندہ رہنا جائز نہیں ، فساد کہاں ہورہا ہے اور نگاہیں کہاں گرم ہورہی ہیں ، اور پھر ہر جگہ آگ لگنے کے خطرات پیدا ہوجاتے ہیں ، میں فساد کے دوران اپنے علاقہ میں آنا چاہتا تھا ، مگر دل کی افسردگی نے کہیں ہلنے نہ دیا ، یہ افسردگی صرف اس بنا پر نہیں تھی کہ مسلمانوں کا خون ارزاں ہوگیا ہے، ان کی آبرو بے وقعت ہوگئی ہے ، اور ان کے اموال مالِ غنیمت بن چکے ہیں ، بلکہ ایک صدمہ اور اس سے بڑھ کر ہے ، اور وہ ایسا صدمہ اور غم ہے جو ہڈیوں میں آگ بن کر گھساہوا ہے ، کہتے ہوئے بھی ڈرتا ہوں ، اور نہ کہوں تو بھی چین نہیں ملتا ، ایک ایسی کشمکش ، ایک ایسا تحیر ، ایک ایسی انتشاری کیفیت ہے کہ نہ یارائے گفتار اور نہ طاقت خموشی ! کبھی بولتا ہوں ، کبھی چپ رہتا ہوں ، کبھی جی چاہتا ہے کہ مدرسہ چھوڑ کر قریہ قریہ گھوموں اور لوگوں کو پکارتا پھروں ، اور کبھی سوچنے لگتا ہوں کہ مجذوب کی بڑ کون سنے گا ؟ چپ چاپ گوشۂ عافیت میں سر دیئے پڑے رہو ۔