استقامت اور تعلق مع اﷲ پر ہے ۔ سبحان اﷲ ! کیا حال تھا ان حضرات کا ، ہر طرح کے نمونے یہ حضرات اپنی زندگی میں دکھلا گئے ہیں ، ہم پچھلوں کے لئے کہیں اندھیرا نہیں ہے ، ہمارے بزرگوں نے اپنے بعدوالوں کے لئے اتنی شمعیں جلادی ہیں کہ نشانِ راہ بالکل روشن ہیں ۔
حضرت شیخ عبد القادر جیلانی قدس سرہٗ نے فرمایا کہ مصیبت میں آدمیوں پر احوال تین طرح کے طاری ہوتے ہیں ، بعض آدمی اس پر اﷲ تعالیٰ کی حمد وثنا کرتے ہیں اور اپنے حق میں اﷲ تعالیٰ کی حکمت پر مبنی کوئی انعام تصور کرتے ہیں ، اور اس پر دل سے راضی رہتے ہیں ، اور بعض اسے مصیبت ہی سمجھتے ہیں ، لیکن چونکہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ہے ، اس لئے دل کو تھامے رہتے ہیں اور صبر کرتے ہیں ، اور بعض لوگ گھبرا جاتے ہیں ، اور اس پر طرح طرح کے شکایات دل میں لاتے اور زبان سے دہراتے رہتے ہیں ، بے صبری کرتے ہیں ، فرماتے ہیں کہ اس لحاظ سے مصیبت کی تین قسمیں ہوجاتی ہیں : پہلی قسم کے لوگوں کے لئے مصیبت ترقی ٔ درجات کے لئے آتی ہے ، اور دوسری قسم کے لئے کفارہ بن کر آتی ہے ، یہ دونوں سراسر خیر ہیں ، اور تیسری قسم کے لوگوں کے لئے عذابِ الٰہی ہے ۔
مومن جو دل میں راسخ ایمان رکھتا ہے ، اس کی مصیبت پہلے دونوں میں سے کسی ایک کے لئے یا دونوں کے لئے ہوتی ہے ، اﷲ تعالیٰ نے نہ جانے کتنے انجانے اور جانے بوجھے گناہوں کا کفارہ اس مصیبت کو بنادیا ہوگا ، اور خدا معلوم کتنے درجات بلند ہوئے ہوں گے ، خدا سے ہمیشہ رحمت اور خیر کی توقع ہے ۔
حدیث کی مشہور کتاب مسلم شریف میں ایک روایت ہے ، حضرت ام سلمہ ام المومنین رضی اﷲ عنھا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اﷲ ا کوارشاد فرماتے سنا کہ جب