میں طغیانی آگئی ، معلوم ہوا کہ جہاز پانی میں غرق ہوگیا ، ہزاروں لاکھوں کا مال تھا ، کسی نے آکر انھیں جہاز کی بربادی کی خبر دی ، انھوں نے بہت اطمینان سے کہا الحمد ﷲ ، حاضرین کو تعجب ہوا کہ یہ موقع الحمد ﷲ کا نہ تھا ،إناﷲ کا تھا مگر کسی کو ہمت نہ ہوئی کہ ان سے سوال کرتا ، بزرگوں کے قلب کو عام لوگوں کے قلوب پر قیاس نہیں کیا جاسکتا تھا ، پھر جب طغیانی فرو ہوئی تو دیکھا گیا کہ جہاز بعافیت کنارے آلگا ، دوبارہ انھیں جہاز کی خیریت وعافیت کی خبر سنائی گئی تو پھر فرمایا کہ الحمد ﷲ ، اب ایک شخص سے نہ رہا گیا، اس نے پوچھ لیا کہ حضرت جب جہاز ڈوبا تھا اس وقت بھی آپ نے الحمد ﷲ ہی پڑھا تھا ، حالانکہ موقع إناﷲکا تھا ؟ فرمایا کہ میاں ! میں نے الحمد ﷲ جہاز کے ڈوبنے یا اس کی عافیت پر نہیں پڑھا ، یہاں ایک دوسری بات ہے ، لوگ سراپا اشتیاق ہوگئے کہ وہ دوسری بات کیا ہوسکتی ہے ، فرمایا کہ مال کا ضائع ہونا ،جہاز کا ڈوب جانا ایک بڑی مصیبت ہے ، اور ایسی مصیبت کے وقت انسان حواس باختہ ہوجاتا ہے ، صبر ورضا کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے لگتا ہے اور حق تعالیٰ سے ربط ٹوٹنے لگتا ہے ، میں نے اس مصیبت کے وقت میں اپنے دل کے بارے میں غور کیا کہ اس کا تعلق خداتعالیٰ سے کمزور تو نہیں ہورہا ہے ، بحمد اﷲ مجھے محسوس ہوا کہ حق تعالیٰ کے ساتھ اس کا وہی سابقہ ربط باقی ہے ، کسی طرح کی جزع فزع ، بے صبری ، ناراضگی دل میں نہیں ہے ، میں نے اُستواریٔ دل اور استقامت قلب پر الحمد ﷲ کہی ، پھر جب مال مایوسی کے بعد سلامت مل گیا تو یہ وقت خوشی میں آپے سے باہرہو جانے کا تھا ، حد سے زیادہ خوشی میں انسان کا قلب خدا سے غافل ہوجاتا ہے ، اس وقت بھی میں نے اپنے دل کو ٹٹولا تو وہ بحمد اﷲ اپنی سابقہ حالت پر موجود تھا ، تو اس پر میں نے الحمد ﷲ کہا ، میرا یہ شکر ادا کرنا ، اس کی حمد وثنا کرنی نہ مال کے ضائع ہونے پر ہے اور نہ اس کے مل جانے پر ، بلکہ دل کی