ارشاد ہے : ولنبلو نکم تا واولئک ھم المھتدون ، ترجمہ : اور ہم تم کو ضرور ہی آزمائیں گے کچھ فاقہ میں ،کچھ خوف میں ، کچھ مال وجان اور پھلوں کی کمی میں ، اور صبر کرنے والوں کو بشارت سنادو جن پر کوئی مصیبت پڑتی ہے تو وہ بول اٹھتے ہیں کہ ہم اﷲ ہی کے ہیں اور ہم کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے ، یہی لوگ ایسے ہیں کہ ان پر ان کے رب کی جانب سے مہربانیاں ہیں اور رحمت ہے ، اور یہی لوگ کامیاب ہیں ۔
اس آیت کریمہ نے ہمیں یہ خبر دی کہ جان ومال کی آزمائش اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اس لئے ہوتی ہے کہ اس سے بندے کے صبرو ضبط اور تسلیم ورضا کاا متحان ہو ، اور مولاکو حق ہے کہ بندے کا امتحان لے ، اور امتحان اسی کا ہوتا ہے جس کو کچھ درجات اور کوئی سند عطا کرنی ہوتی ہے ، انبیاء کا امتحان ہوا ، اولیاء وصالحین کا امتحان ہوا ، صحابۂ کرام کا امتحان ہوا ، ان حضرات کا ایسا ایسا امتحان ہوا کہ آج ہم لوگ محض سن کر گھبراجاتے ہیں ، پِتّہ پانی ہوجاتا ہے ، ان حضرات نے جان پر کھیل کر ، آبرو لٹاکر ، مال ودولت کی قربانی دے کر یہ امتحان دیئے ہیں ، ہم نے انھیں کی پیروی کادم بھرا ہے ، انھیں کی اقتداء میں نیت باندھی ہے ، انھیں کی راہ پر چلنے کا ارادہ کیا ہے تو ضرور ہے کہ تھوڑا بہت ان کا رنگ جھلکے تاکہ جس صبر واستقامت کی وہ حضرات بنیادیں قائم کرگئے ہیں ان کی تعمیر میں ہمارا بھی کچھ حصہ ہو جائے ، اﷲ تعالیٰ نے ایک بڑی آزمائش آپ پر ڈال دی ، مگر مجھے اس کا یقین ہے کہ اس کی برداشت کا حوصلہ بھی دیا ہے ، خدا پر یقین واعتماد کی جو شمع آپ کے دل میں روشن ہے اس نے تاریکی کو تاریکی کب باقی رکھا ہوگا؟
ایک بزرگ تھے حضرت شیخ صدرالدین عارف ، اﷲ والے بھی تھے اور بہت بڑے تاجر اور صاحب ثروت بھی تھے ، ان کے تجارتی تعلقات باہر ملکوں سے بھی تھے ، ایک مرتبہ سمندری راستے سے ان کا مال باہر سے آرہا تھا ، جہاز قریب آگیا تھا کہ سمندر