لگ گئے ۔مہمان دم بھر ٹھہر گیا ، مگر اس کا دم بھرٹھہرنا قیامت تھا ، خیر اب اس کا قصور معاف ! پھر نہ آئے ، ایسے مہمان سے ڈر لگتا ہے کہ کہیں میزبان کو لے جانے پر اصرار نہ کرے ۔
جا …اے درد…اب نہ آنا ، بہت سے دروازے ہیں کہیں بھی چلا جا ۔ دنیاداروں کے یہاں تیری دعوت عام ہے ، دینداروں کے یہاں تیرا کام نہیں ہے۔
خیر تو خود سے آتا نہیں کسی کے بھیجنے سے آتا اور اسی کے بلانے سے واپس جاتا ہے ، تو تو کسی کا قاصد ہے ، کبھی لے جانے کیلئے آتا ہے اور لے کر چلا جاتا ہے ، دنیا دیکھتی رہ جاتی ہے ، اور کبھی تنبیہ کے لئے آتا ہے کہ دیکھ انسان تیری مستی آنِ واحد میں ختم ہوسکتی ہے ، اس لئے اب خبردار ہوجا ، اب سے غفلت دور کرلے ، دل غفلت کا محل نہیں ہے ، یہ ذکر ومحبت کا مقام ہے ، اگر اس میں غفلت رہے گی تو دیکھ جیسے اس وقت آکر میں نے صرف چونکایا ہے ، آئندہ چونکاؤں گا نہیں ، دوسری ہی دنیا میں آنکھ کھلے گی ۔
اور کبھی اس لئے آتا ہے کہ اہل محبت اور اہل تعلق کو چونکائے کہ اے لوگو! جس کو تم اپنے درمیان پاتے ہو ، اسے برتتے اور اس سے استفادہ کرتے ہو ، اس کے کرم اور فیاضیوں سے بہرہ مند ہوتے ہو ، اور سمجھتے ہو کہ یہ ہمارے پاس ہے ، ہماری دسترس میں ہے ، جب چاہیں گے حوض سے پانی بھر لیں گے ، یاد رکھو کہ یہ دولت مستعجل ہے ،بے فکر نہ رہو ، جو استفادہ کرسکتے ہو ، ظاہری نہیں باطنی ، مادی نہیں روحانی، جسمانی نہیں قلبی ، استفادہ کرلو ، اس ایک چراغ سے اپنے چراغوں میں روشنی حاصل کرلو ورنہ یہ قندیل اٹھ جا ئے گی ، تو تمہارے دئے کہاں سے روشنی پائیں گے ؟
اے درد! تو آیا ، تیرے آنے کو مبارک کہوں یا نامبارک ؟ تو محبوب حقیقی کے