محترمی ومکرمی! عافاکم اﷲ ممایوذیک
السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہٗ
پرسوں مولوی کلیم الدین صاحب سلّمہ کی زبانی معلوم ہوا کہ آپ کی طبیعت ناساز ہے ۔ ہم لوگ تو اپنی کہی ہوئی بات کے مطابق ۱۵؍جون کے بعد سے آپ کا انتظار کررہے تھے ، جب دیر ہوئی ، تو دل کو یہ کہہ کر بہلالیا کہ مہمان کثرت سے آرہے اور جارہے ہیں ، شاید اس وجہ سے موقع نہیں ملا ، لیکن کیا معلوم تھا کہ آپ کی مہمان نوازی کی صلائے عام عالم امراض وعلل تک جاپہونچے گی ۔ لوگ تو آپ کے سفرۂ طعام سے استفادہ کررہے تھے ، ان صاحب کو کیا سوجھی کہ مائدہ قلب وجگر پر دھونی رما کر بیٹھ گئے ۔ دردِ دل ( عشق ومحبت ) کی آپ کے یہاں کون سی کمی تھی کہ تمام دنیاداروں ، سرمایہ داروں ، بے کیف وبے حلاوت اور خود غرض ونفس پرور لوگوں کو چھوڑ کر آپ کے خانۂ جسم میں گھس آیا ، اور دل کے دروازے پر دستک دے ڈالی ، اسے تو وہاں جانا چاہئے تھا جہاں اصلی وحقیقی دردِ دل کی کمی تھی ، وہاں جاتا ، جگہ خالی ملتی، بیٹھتا ، اور ان خالی خولی جسموں کو لے کر اٹھتا ۔ آپ کا دل تو معمور تھا ، آباد تھا ، یہاں تو مستی تھی، خدا مستی تھی ، دل کا گوشہ گوشہ بھرا پُراتھا ۔
کیا صرف زیارت کرنے آیا تھا ، شاید اسے خیال آیا ہو کہ یہ کون سا گھر ہے جہاں دنیا کی دنیا چلی آرہی ہے ، جہاں برا ت ہی برات ہے ، عاشقوں کا جمگھٹا ہے ، محبوبوں کا مجمع ہے ، اہل دل کا ہجوم ہے ، سوچا ہوگاکہ میں بھی دیکھ آؤں !
اچھا ! آیا تھا تو دیکھ کر فوراً چلا جاتا ! مگر آپ کو کب گوارا تھا کہ کوئی مہمان آئے اور یوں ہی دیکھ کر چلا جائے ، اس کی ضیافت کرنی ہے ۔ مہمان آیا ہے تو اب مولوی ظفر (صاحبزادے )بھی مشغول ہوں ، حسام( بھائی ) بھی انتظام میں لگ جائیں ، سب