اذن سے آیا ہے اس لئے میں نامبارک نہیں کہہ سکتا ، ہاں تیرا آنا مبارک ہوا کہ تو نے ہماری آنکھوں کو آنسوؤں سے اور دل کو دعاؤں سے لبریز کردیا ، زبان پر ہمدردی کے بول آئے ، دعاؤں کے کلمات آئے ، ہاتھ خدا کے سامنے پھیلے ، زندگی اور عافیت کی بھیک مانگی گئی ، تو نے تکلیف تو پہونچائی مگر یہ تکلیف نہ جانے کتنے دردوں کا مداوا بنی ، اﷲ جانے کتنے سیئات کا کفارہ بنی ، کتنے درجات کا سبب بنی ۔
اے اﷲ ہم بندے ہیں ، محتاج ہیں ، زندگی آپ نے دی ہے ، صحت آپ نے دی ہے ، عافیت آپ نے بخشی ہے ، کمالات آپ نے عنایت فرمائے ہیں ، محبت آپ کا عطیہ ہے ، دعائیں بھی ، دوائیں بھی سب آپ کے دربار سے ہیں ، ہم دعائیں کریں اور آپ ٹھکرادیں نہ ہماری بندگی اس کی متحمل ہے ، نہ آپ کی خدائی کو یہ گوارا ہے ، بس پروردگار ہم مانگیں اور آپ ہماری جھولی بھردیں ، اور مولیٰ آپ جانتے ہیں کہ ہم کیا مانگ رہے ہیں اور آپ کو کیا دینا ہے ؟
بس کرو میاں صاحب !ہم اچھے ہوکر گھر آگئے ، خدا نے دعا قبول کرلی ، میاں ظفر نے بہت محنت کی ، دل سوزی کی، خدمت کا حق ادا کیا ، میاں حسام بہت بیقرار رہے ، اپنی جیسی کرلی ، اﷲ نے عافیت بخشی ، اب گھر پہ ہوں ، پھر وہی ہاء وہو ہے ، پھر وہی ناؤ ونوش ہے ، آؤ تو تم بھی دیکھ لو ۔
جی ، آنے کی تو بیقراری ہے ، مگر کچھ مجبوری بھی ہے ، اس لئے آدھا آیا ہوں ، سلام کررہا ہوں ، دیکھئے جواب کب سننے میں آتا ہے ۔ والسلام
اعجاز احمد اعظمی
۱۸؍ صفر ۱۴۱۷ھ
٭٭٭٭٭