قال رسول اﷲ ﷺ إن العبد إذا سبقت لہ من اﷲ منزلۃ لم یبلغھا بعملہ ابتلاہ اﷲ فی جسدہ أو فی مالہ أو فی ولدہ ثم صبرہ علیٰ ذٰلک حتیٰ یبلغہ المنزلۃ التی سبقت لہ من اﷲ۔
رسول اﷲ ا نے ارشاد فرمایا کہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بندے کے لئے کوئی مخصوص درجہ اﷲ کے علم میں مقدر ہوتا ہے، لیکن وہ اپنے عمل اور عبادت کے ذریعہ وہاں تک پہونچنے سے قاصر رہتا ہے تو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے کوئی آزمائش اس کے جسم وجان میں یا اس کے مال میں یا اس کی اولاد میں آجاتی ہے، پھر اﷲ تعالیٰ اسے صبر کی توفیق بخشتے ہیں ، بالآخر وہ اس درجہ کو پالیتا ہے جو خدا کے علم میں مقدر ہوچکا تھا۔
میں سوچتا ہوں کہ آپ کا ابتلاء تو تینوں امور میں ہے ، پھر اﷲ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ کس مقام ومرتبہ پر آپ کو پہونچایا جارہا ہے ، سبحان اﷲ ، گوکہ عافیت وراحت خدا کا بہت بڑا انعام ہے لیکن اس کاان مصائب وآلام سے کیا مقابلہ؟ رسول اﷲ ا کا ارشاد ہے اور بالکل سچ ہے:
یود اھل العافیۃ حین یعطیٰ اھل البلاء الثواب لو أن جلودھم کانت قرضت فی الدنیا بالمقاریض۔
اہل عافیت قیامت کے دن جب اہل بلاء کی بخشش وعنایت کو دیکھیں گے تو تمنا کریں کہ گے کہ اے کاش دنیا میں ہماری بھی کھالیں قینچیوں سے کاٹی گئی ہوتیں ۔
دنیا میں مصیبت کی تمنا درست نہیں ہے لیکن اضطراری مصائب پر جب انعام واکرام کی بارش دیکھیں گے تو یہی تمنا ہوگی کہ کاش ہم پر بھی مصائب کے یہ پہاڑ ٹوٹے ہوتے کہ آج ہم بھی نوازے جاتے ، کہاں تک عرض کروں ،داستان طویل ہے، خدا کی رحمت بے پایاں ہے، اس کی تھاہ کون پاسکتا ہے؟
اﷲ تعالیٰ نے دونوں صاحبزادوں کو شہادت کی دولت سے نوازا ،اور شہادت