پڑھتاہے ، پھر یہ دعا کرتا ہے کہ اے اﷲ اس مصیبت میں مجھے اجر عطا فرمائیے ،اور اس کا نعم البدل عطا فرمائیے، تو اس پر اﷲ تعالیٰ اس سے بڑھ کر نعمت عطا فرماتے ہیں ، پس جب میرے شوہر ابوسلمہ کاانتقال ہوگیا تو میں نے اپنے دل میں کہا کہ ابوسلمہ سے بہتر کون مسلمان ہوگا جو مجھے ملے گا ، یہی پہلا گھرانا تھا جس نے رسول اﷲ اکی جانب ہجرت کی تھی ، تاہم میں نے یہ دعا کرلی ، واقعی اﷲ تعالیٰ نے سچ کر دکھایا اور ابوسلمہ سے بدرجہا بہتر شوہر مجھے نصیب ہوئے یعنی خود جناب رسالتمآب ا۔
استاذی المحترم !میں کیا عرض کروں ،اور میرا منہ کیا ہے کہ کچھ عرض کرسکوں ، تاہم اتنی بات ضرور گوش گزار کرنی چاہتا ہوں کہ ان مصائب وبلایا میں خداوند عالم کی کیا کیا حکمتیں پنہاں ہیں ، کون جان سکتا ہے ؟امورِ غیب کے سب سے بڑے رازداں اسے پوچھا گیا کہ :
أَیُّ الناسِ أشدُّ بلائً قال: الانبیاء ثم الامثل فالامثل یبتلی الرجل علیٰ حسب دینہ فان کان فی دینہ صلباً اشتد بلاء ہ وإن کان فی دینہ رقۃً ھون علیہ فمازال کذٰلک حتیٰ یمشی علی الارض مالہ ذنب۔
سب سے بڑھ کر بلاؤں کا ورود کن لوگوں پر ہوتا ہے ؟ ارشاد فرمایا : انبیاء پر (علیہم الصلوٰۃ والسلام) پھر ان لوگوں پر جو انبیاء کے بعد افضل ہیں اور پھر درجہ بدرجہ ، آپ نے فرمایا کہ آدمی کاابتلاء اس کی دینداری کے بقدر ہوتا ہے ، اگر اسے پختہ دینداری حاصل ہوتی ہے تو اس پر بلائیں بھی سخت ٹوٹتی ہیں اور اگر اس کے دین میں صلابت نہیں ہوتی تو اس کا معاملہ نرم ہوتا ہے ، پھر ان بلاؤں اور مصائب کی وجہ سے بندے کی یہ حالت ہوتی ہے کہ وہ ہر گناہ کے بار سے ہلکا ہوکر زمین کے اوپر چلتا پھرتا ہے۔
کیا عرض کروں جب شدتِ بلاء کو ایمان کی پختگی کا معیار قراردے رہے ہیں تو پھر یہ شدائد ومصائب کس بات کی بشارت لارہے ہیں ، آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں ، اسی سے ملتی جلتی ایک حدیث اور گوش گزار کردوں ۔