کے تلامذہ سلسلۂ تعلیم کے اختتام کے بعد بھی آپ سے وہی ربط وتعلق رکھتے ہیں جو عہد طالب علمی میں رکھتے تھے ، اور اپنی عملی زندگی میں ہر طرح کے مسائل میں رہنمائی کے طالب ہوتے ہیں ، ان خطوط میں آپ دیکھیں گے کہ تربیت واصلاح کے ساتھ ساتھ فلسفہ ٔ وکلام کی مشکل گتھیاں بھی سلجھائی گئی ہیں ، دعوت وتبلیغ کے موثر طریقوں کی جانب رہنمائی بھی کی گئی ہے ، اشکالات واعتراضات کا تسلی بخش اور مدلل جواب بھی دیا گیا ہے ، ذاتی کیفیات ومشکلات کا حل بھی بتایا گیا ہے ، عصر حاضر کے فتنوں اور مدارس اسلامیہ میں پیدا شدہ حالات کے اسباب اور حل پر بھی کلام کیا گیا ہے ، غرض کہ زندگی گزارنے کے رہنمااصول اور ان پر عمل پیرا ہونے کے طریقے سمجھائے گئے ہیں ، تاکہ ان کی روشنی میں آدمی صراط مستقیم پر گامزن رہے ، اور اﷲ ورسول کی محبت کا چراغ اس کے نہاں خانۂ دل میں روشن رہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ مکاتیب حضرت الاستاذ مدظلہ نے ایک مربی ، سرپرست ، استاذ اور دردمند بزرگ کی حیثیت سے لکھے ہیں ان کے سامنے ایک مشن ہے کہ اپنے تلامذہ ومتعلقین کے اندر خالص اسلاف کے رنگ میں دین کی خدمت کا ولولہ پیدا کریں اور انھیں بزرگان دین کے نقش قدم پر قائم رکھیں ، اس کیلئے وہ نبوی اصول کو سامنے رکھ کر ذہن سازی وکردار سازی کیلئے زبان وقلم کو استعمال کررہے ہیں ۔ میں نے پہلے پہل اپنے والد مرحوم کے نام حضرت مولانا کے خطوط کو پڑھا ، اس کا دل نے گہرا اثر قبول کیا ،پھر آپ کی ڈائریوں میں درج اکثر خطوط میں نے پڑھ ڈالے، دیوبند کے زمانۂ طالب علمی میں حضرت سے مکاتبت کا سلسلہ استوار ہوا، اسی وقت سے یہ خیال دل میں تھا کہ آپ کے مکاتیب کو شائع ہونا چاہئے تاکہ دوسرے حضرات بھی ان قیمتی مضامین سے استفادہ کریں اور اس سے نفع حاصل کریں ، چنانچہ ماہنامہ