کے عکاس ہوتے ہیں ، جن میں مکتوب نگار بغیر کسی تکلف وتصنع کے اپنے وارداتِ قلب کو اپنے رفقاء ، عزیزوں اور تلامذہ کے سامنے صفحہ قرطاس پر منتقل کردیتا ہے ۔ ’’تصنیف وتالیف کے فکر واہتمام سے انھیں کوئی مناسبت نہیں ہوتی ، نہ وہ سوچ بچار کرکے لکھے جاتے ہیں ، نہ ان میں دخل عبارت آرائی کو ہوتا ہے ، نہ ان پر نوبت نظر ثانی کی آتی ہے، یہ نجی خطوط سادہ زبان میں اور قلم برداشتہ لکھ دئے جاتے ہیں ۔‘‘
استاذی حضرت مولانا اعجاز احمد صاحب اعظمی مدظلہ کے یہ خطوط بھی برجستہ اور قلم برداشتہ لکھے گئے ہیں ، ان میں بیشتر ان کے تلامذہ کے نام ہیں ، جن کا موضوع تعلیم وتربیت اور اصلاح نفوس ہے، جو حضرت مولانا کا خاص ذوق اور مشن ہے ، چنانچہ اسی کا نتیجہ ہے کہ آپ کے تلامذہ کی اکثریت تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد تعلیم وتعلم اور خدمت دین میں لگی ہوئی ہے ۔ حضرت کی اپنے تلامذہ ومتعلقین پر محبت وشفقت بے انتہا ہے، ان کی دینی ودنیوی صلاح وفلاح کے لئے ہمہ دم کوشاں رہتے ہیں ، اور اس سلسلے میں جو کچھ مدد ہوسکتی ہے اس سے دریغ روا نہیں رکھتے ، ان خطوط میں آپ جگہ جگہ اس محبت وشفقت اور ہمدردی وغمخواری کے نمونے دیکھ سکتے ہیں ، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ایک مصلح ومربی کا صاف وشفاف دل ہے جو اپنے متعلقین کے لئے بے چین ، مضطرب اور بے قرار رہتا ہے ،اور چاہتا ہے کہ میرے یہ اہل تعلق کبھی جادۂ مستقیم سے منحرف نہ ہوں ، ہمیشہ خالق ومالک سے جڑے رہے ہیں ، اور اپنے مقصد حیات کو کبھی فراموش نہ کریں ، اور اپنے خالق کی منشاومرضی کے مطابق اپنی زندگی گزاریں ، آپ اس میں گہرے تعلقات کی شیرینی اور محبت کی مٹھاس اورسچے مقصد کی لگن کو نمایاں طور پر محسوس کریں گے، بلکہ ان کا اصل محرک اورجوہرتو محبت ہی ہے، جو صاحب مکاتیب کی زندگی کا سب سے نمایاں عنصر ہے، اسی کا اثر ہے کہ آپ