کی حمد وثنا کریں گے، اور کسی تکلیف دہ اور پریشان کن بات کا سامنا ہوگا تو نیت اچھی رکھیں گے اور صبر کریں گے، حالانکہ نہ ان میں قوت برداشت ہوگی نہ عقل۔ حضرت عیسیٰؑ نے عرض کیا کہ جب ان میں نہ قوت برداشت ہوگی اور نہ عقل تو پھر یہ انھیں کیونکر حاصل ہوگی؟ فرمایا کہ انھیں اپنے حلم اور علم سے بخشش عطا کروں گا۔
سُبْحَانَ اﷲ! کیا رحمت ہے پروردگار کی ، ہم حلم اور عقل دونوں سے خالی تھے تو رب کریم نے خاص اپنے حلم اور علم کی بخشش سے نوازا، یہی وہ بات ہے جو مومن کے قلب کو مضبوط رکھتی ہے اور اسے مغلوب نہیں ہونے دیتی ۔ اب آپ کی بات کیا عرض کروں ؟ کہ اس بخشش ونوال کا کتنا حصہ ملا ہے ، کون جان سکتا ہے ، پے درپے ایسے سنگین صدمات کی برداشت بلا شبہ عنایت ربّانی کا خاص مظہر ہے ۔ رسول اﷲا کا ارشاد ہے کہ :
یقول اﷲ تبارک وتعالیٰ: ابن آدم إن صبرت واحتسبت عند الصدمہ الاولیٰ لم أرض لک ثواباً دون الجنۃ۔( مشکوٰۃ شریف)
اﷲتبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ اے ابن آدم ! اگر تو نے صدمہ پڑتے ہی صبر کرلیا اور اجر کی امید باندھ لی تو یہ سمجھ لو کہ میں جنت سے کم ثواب دینے پر ہرگز راضی نہ ہوں گا۔
اﷲ،اﷲایک صبر واحتساب پر رب کریم کی جانب سے یہ عنایت بجز جنت کے وہ خود کسی اور ثواب پر راضی نہیں ، بے شک یہی شانِ رحمت ہے اس پروردگار کی جس کی رحمتوں کے وسیع وعریض سائے میں ہم ساری نعمتیں پارہے ہیں ۔ رسول اﷲ ا کاارشاد ہے : [وھو الصادق المصدوق نومن بکل ما أتیٰ بہ وقالہ]
إذا مات ولد العبد قال اﷲ لملائکتہ قبضتم ولد عبدی ؟