ذرہ وآفتاب کی نسبت بھی نہیں ہے ، لیکن بحکم حدیث مظلوم تو اگر کافر بھی ہوتب بھی اس کی دعا رد نہیں ہوتی ، اور اس کا بدترین کفر بھی مقبولیت کی راہ میں حائل نہیں ہوتا ۔ وہ سیدھی عرشِ الٰہی کو جاچھوتی ہے ۔ اس لئے میرے خیال میں اجابت دعاء کی راہ میں نہ کوئی رکاوٹ ہے اور نہ تردد، بس بات صرف اتنی سی ہے کہ ہر کام کا اﷲ کے نزدیک ایک وقت مقرر ہے ، جس کو وہی جانتا ہے ، اس وقت وہ کام یقینا ہوگا ، اس سے پہلے نہیں ہوگا۔ ارشاد ہے:وَلِکُلِّ أُمَّۃٍ أَجَلٍ إِذَا جَائَ أَجَلُھُمْ فَلَایَسْتَاخِرُوْنَ سَاعَۃً وَلَایَسْتَقْدِمُوْنَ۔ ہر جماعت کیلئے ایک مدت مقرر ہے ، اس سے نہ پیچھے ہٹ سکتی ہے اور نہ آگے بڑھ سکتی ہے۔
دعائیں سب ان کے حضور باریاب ہوتی ہیں ، وہ سمیع وعلیم ہیں ، رحیم وکریم ہیں ۔ فرماتے ہیں : وَإِذَا سَأَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّی فَإِنِّیْ قَرِیْبٌأُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ۔اور جب میرے بندے میرے متعلق دریافت کریں تو (کہدو) کہ میں قریب ہوں ، پکارنے والے کی پکارکو منظور کرتاہوں جب وہ پکارتے ہیں ۔
وہ علیم وقدیر ہیں ، سمیع وبصیر ہیں ، رحیم وکریم ہیں ، مگر حکیم وحلیم بھی ہیں ۔ ان کی حکمت کا شاید یہی تقاضا ہو کہ حالات چندے ناموافق رہیں ، امداد واعانت میں قدرے تاخیر ہو، اور اس میں مصلحت یہ ہو کہ خشیت وانابت ، تضرع وزاری ، عجزو بیچارگی اور فریادوفغاں کی جو مقدار ان کے نزدیک مطلوب ہوتی ہے کبھی اس میں کمی رہ جاتی ہے۔ شاید اس طرح اس کمی کو پورا کرنا چاہتے ہوں ۔ حقیقت یہ ہے کہ کٹھن اوقات اور شدید حالات کی یہ بھٹی ایسی ہے کہ اس میں جہاں ایک طرف گناہوں اور معصیتوں کے انبار کے انبار جل کر راکھ سیاہ ہوجاتے ہیں ، وہیں گریہ وزاری ، تضرع وفریاد اور نالۂ وفغاں کی وہ دولت بے بہا بھی حاصل ہوجاتی ہے جو اﷲ کو بے حد محبوب