ایک کارڈ دریافتِ احوال کے لئے لکھنے بیٹھا تھا، لکھنا شروع کیا تھا کہ یہ مضامین ذہن میں آگئے ، سوچا کہ لکھ ہی دوں ، شاید کچھ موجب تسلی ہوں ۔
۱۵ ؍ شعبان تک یہاں امتحان ختم ہورہا ہے ، اس کے بعد انشاء اﷲ گھر آؤں گا، رمضان شریف میں بعض مصلحتوں کی بناء پر الہ آباد ہی رہنے کی ضرورت ہے ، اب جو اﷲ کو منظور ہو، دعاؤں کا طالب ہوں ۔ والسلام
اعجاز احمد اعظمی
یکم ؍ شعبان ۱۳۹۸ھ
٭٭٭٭٭
حضرت والد ی المحترم! دام مجدھم
السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ
ایک خط لکھ چکا ہوں ، ملا ہوگا ، آج آپ کا خط ملا۔ حالات کی اطلاع سے شدید صدمہ ہوا، بہت دیر تک اکیلا کمرہ میں پڑا فریاد وفغاں کرتا رہا ۔ میرا ارادہ گھر آنے کا تھا ، مگر وسائل اجازت نہیں دیتے اس لئے مجبور ہوں ۔ میں برابر آپ کے حق میں دعاء کیا کرتا ہوں ، کبھی غافل نہیں ہوتا ۔ لیکن موجودہ مکتوب سے جو آپ کی حالت دریافت ہوئی اس سے سخت پریشان ہوں ۔ حقیقت یہ ہے کہ رنج پیہم کے جو دھچکے آپ کو لگ رہے ہیں ا س کو جھیل لینا ہر ایک کے بس کاکام نہیں ۔ آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ ضرور کوئی لغزش ایسی ہے جس کو ہم نہیں جانتے مگر وہ دعا کی قبولیت میں رکاوٹ بن رہی ہے۔
والدی المحترم! یہ بات بلاشبہ درست ہے کہ ہم لوگو خطاؤں اور گناہوں کے پیکر ہیں ۔ اگر ہم اﷲ کے نیک بندوں کی زندگیوں سے اپنی زندگی کا مقابلہ کریں تو