إنِّيْ أَسْأَلُکَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ فِيْ دِیْنِيْ وَدُنْیَايَ وَأَہْلِيْ وَمَالِي(مناجات مقبول منزل سوم ) اے اﷲ! میں اپنے دین ، دنیا ، اہل اور مال میں معافی اور امن کا سوال کرتا ہوں ۔ میں دل سے یہی دعا کرتا ہوں اور روز کرتا ہوں ۔ دوسرے لفظوں میں یوں بھی ارشاد ہے : أَسْأَلُ اﷲَ الْعَافِیَۃَ فِيْ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ۔میں اﷲ سے دنیا اور آخرت میں عافیت کا سوال کرتا ہوں ۔ حدیث میں ہے کہ اﷲ تعالیٰ کو کوئی دعاء اس قدر پسند نہیں جتنی عافیت کی دعاء ، انسان بہر حال انسان ہے ، رنج وغم سے متاثر ہوتا ہی ہے ، یہ تو اس کے لئے لازم ہے، اسی لئے صبر کی تلقین کے ساتھ اﷲ رب العزت نے فریاد وزاری کا بھی حکم دیا ہے اور دونوں ہی سے ترقی ٔ درجات ہوتی ہے۔
ایک حدیث میں یہ دعاء آئی ہے : یاأرحم الراحمین إلیٰ من تکلنی إلیٰ عدوٍ یتجھمنی أم إلیٰ قریبٍ ملکتہ أمری إن لم تکن ساخطاً علیّ فلاأبالی غیر أن عافیتک أوسع لی۔ (مناجات مقبول منزل سوم) اے ارحم الراحمین ! آپ مجھے کس کے سپرد کرتے ہیں ، کسی دشمن کے جو مجھ پر حملہ آور ہوتا ہے یا کسی عزیز وقریب کے جس کو آپ نے میرے معاملے کا مالک بنادیا ہے ۔ اگر آپ کی مجھ پر ناراضگی نہ ہوتو مجھے کوئی فکر نہیں ، تاہم آپ کی عافیت بہت وسیع ہے۔
یہ دعا آپ نے اس وقت کی ہے جبکہ طائف میں آپ کو سخت تکلیف پہونچائی گئی تھی ۔ دیکھئے اس میں اولاً تو عزیمت ہے کہ اگر آپ ناراض نہیں تو پھر مجھے کسی تکلیف کی پرواہ نہیں ہے ، مگر پھر اپنے ضعف اور اﷲ کی قدرت پر نظر کرکے عافیت کی درخواست بھی پیش کردی۔
بہر کیف اﷲ تعالیٰ کی جانب سے جو اُمور پیش آتے ہیں ان میں خیر ہی خیرہے ، خواہ اس کو ہم نہ سمجھ سکیں ، حسن عاقبت تو ان شاء اﷲ عقبیٰ میں نظر آئے گی۔