آتا، ہر وقت طبیعت میں اسی کی ادھیڑ بُن لگی رہتی ہے ، دوسرے دشمن پر غصہ کی وجہ سے ہر وقت طبیعت میں آگ بھری رہتی ہے جس کا کرب ظاہر ہے ، تیسرے جان ومال کا جو نقصان ہوتا ہے اس کی تکلیف مستقل سوہانِ روح رہتی ہے ، چوتھے وقت کی بربادی ہے، اور اسی طرح سے بہت سے ضروری کاموں کا رہ جانا، اور فضول بلکہ کبھی کبھی معصیت تک کے کاموں میں مبتلا ہوجانا، بس چاروں طرف سے مصیبت ہی جمع ہوجاتی ہے۔
اسی بنا ء پر اگر آدمی اس مصیبت میں ثابت قدم رہے اور شریعت پر جمارہے تو اجر بھی سب سے زیادہ ہے ، جب تک اس میں معصیت نہ شامل ہوجائے آخرت کے اعتبار سے بلکہ دنیا کے لحاظ سے بھی رحمت ہی رحمت ہے۔حدیث میں دعا ہے : لَاتَجْعَلْ مُصِیْبَتَنَا فِیْ دِیْنِنَا( مناجات مقبول منزل دوم ) یعنی اے اﷲ ! ہمارے دین میں مصیبت نہ بھیجو۔
حضرت شیخ الہندؒ کو جب انگریزوں نے گرفتار کیا تو فرمایا کہ بمصیبتے گرفتارم نہ بمعصیتے، خدا کا شکر ہے کہ ایک مصیبت میں گرفتار ہوں نہ کہ کسی معصیت میں ۔اور میں تو سوچتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ نے آپ کو وہ قوت وہمت عطا فرمائی ہے جو خاص خاص لوگوں کو عطا ہوئی ہے ، آپ کی تکلیف دیکھتا ہوں اور پھر صبر استقلال دیکھتا ہوں تو بے اختیار فرطِ جذبات سے آفریں نکلتی ہے کہ ایک شخص مستقل ایذا دہی کے لئے مقرر ہے ۔
حضرت شیخ جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب ’’ التحدیث بالنعمۃ ‘‘ میں لکھا ہے کہ :
ومما أنعم اﷲ بہ علیَّ أن أقام لی عدواً یوذینی ویمزق فی عرضی لیکون لی أسوۃ بالانبیاء والاولیاء ،قال رسول اﷲ ﷺ أشد