قبلہ محترم جناب والد صاحب! دام مجدھم
السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ
الحمد ﷲ بخیریت ہوں ۔ جب سے بارش ہوئی ہے طبیعت گھر کی جانب بہت زیادہ متوجہ رہتی ہے کہ معلوم نہیں وہاں کی صورت حال کیا ہے ؟ برابر اﷲ سے دعا کرتا ہوں کہ ہر طرح عافیت حاصل رہے ، تاہم یہ بھی سمجھتا ہوں کہ یہ ایک امتحان اور آزمائش ہے ، اور یہاں کے امتحان کی آخری میعاد وہ دن ہے جبکہ آدمی اس دارِ فانی سے کوچ کرتا ہے ، ظاہر ہے کہ یہاں تو آدمی کشاکش میں رہتا ہی ہے، آخرت کا آرام اور وہاں کا عیش یہاں کی تکلیف ومصیبت کے بقدر ہے ، اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں :
وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَئْیٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ ونَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِیْنَ الَّذِیْنَ إِذَا أَصَابَتْھُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوْا إِنَّا ﷲِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ أُوْلٰئِکَ عَلَیْھِمْ صَلَوَاتٌ مِّنْ رَّبِّھِمْ وَرَحْمَۃٌ وَّأُولٰئِکَ ھُمُ الْمُھْتَدُوْنَ ۔
( ہم تم کو کسی قدر خوف ، بھوک اور جان ومال اور پھلوں کی کمی سے ضرور آزمائیں گے ،اور صبر کرنے والوں کو بشارت دے دو، جن کا حال یہ ہے کہ جب انھیں مصیبت لاحق ہوتی ہے تو کہتے ہیں ہم اﷲ ہی کی ملکیت میں ہیں ( وہ جو چاہیں تصرف کرسکتے ہیں ) اور ہم انھیں کی جانب لوٹنے والے ہیں ( پھر ان پر یہ انعام ہے کہ ) ان کے رب کی طرف سے خاص خاص رحمتیں ہیں اور عام رحمت بھی ، اور یہی لوگ ہیں جن کی( حقیقتِ امر تک ) رسائی ہوگئی ہے۔
اس میں سب سے پہلے خوف کا ذکر کیا ہے ، اس سے مراد دشمنوں کا خوف ہے جو آدمی کی نیند اُڑا دیتا ہے ، اور غالباً یہی آزمائش سب سے سخت ہے کہ اس میں آدمی کئی طرح سے تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے۔ ایک تو یہ کہ کسی وقت اطمینان میسر نہیں