کے سوا کسی اور چیز سے واقف نہیں اور طاقت کے سوا ان کا کوئی معبود نہیں، مادی ترقی اور ارضی خوشحالی کے سوا ان کا کوئی نصب العین اور مقصود نہیں، وہ صرف انسانوں کے اس مجموعہ کو معتبر مانتی ہیں، جن کو کوئی قومی یا سیاسی معاہدہ مربوط کرتا ہے، اور وہی اس کے نزدیک عزت و احترام کا مستحق ہے، اس ذہن و مزاج اور نفسیات (سائیکالوجی) نے ہر دور میں دنیا کو مصیبت میں ڈالا ہے، مذاہب نے اس تنگ اور مریض ذہنیت کے خلاف جہاد کیا ہے، اسلام بھی اس کو مٹانے کے درپے ہے، کسی اسلامی ملک کے رہنما کا اس ذہنیت کو اپنانا اور اس طرز فکر کو اختیار کرنا بہت بڑی فکری انحطاط اور پستی کی علامت ہے، جس سے ایمان کی کمزوری، تربیت کی خرابی، پست ہمتی اور تنگ نظری کا پتہ چلتا ہے، اور یہ خود اس ملک کے لئے اور اس کے نتیجہ میں ساری دنیا کے لئے ایک بڑی بدنصیبی ہے۔
اپنی اسلامی شخصیت اور اس دنیا میں اس امت کے منصب و مقام کی حفاظت اس کا احساس کہ اس کا پیغام اور دعوت کیا ہے، اخروی زندگی اور زندگی کے اخلاقی و روحانی پہلو پر اصرار وہ حد فاضل (LINE OF DEMARCATION) ہے، جو ان دو تہذیبوں کو ایک دوسرے سے جدا کرتی ہے۔ ایک وہ تہذیب جس کا سرچشمہ اسلام ہے، اور اس کی ذمہ داری اس نے قبول کی ہے، اس میں اسلامی شخصیت کی خود نگری اور خود شناسی نظر آتی ہے، دوسری تہذیب وہ ہے جس سے اسلام نےبرات کا اظہار کیا ہے، اور مسلمانوں کا اس میں نقصان ہی نقصان ہے، اور اس میں ذہنی غلامی، شکست خوردگی پوری طرح نمایاں ہے، اور بندروں کی طرح نقل کرنے (APING) کا جذبہ، اور طوطے کی طرح ہر سنی ہوئی چیز کو دہرانے کا طریقہ اس سے صاف ظاہر ہے۔