اور ضروری تمدنی ترقیات سے بھی محروم تھا، اس پسماندگی کا اندازہ ایک ایسے ذی علم مسلمان سیاح کے بیانات سے کیا جاسکتا ہے، جنہوں نے ۱۹۱۵ء میں افغانستان کا سفر کیا تھا، اور آٹھ برس وہاں کی زندگی اور سیاسیات میں دخیل رہ کر ایک ہم وطن کی طرح اس ملک کے حالات کا مطالعہ کیا تھا، ظفر حسن صاحب ؎۱ ایبک افغانستان کی تعلیمی حالت بیان کرتے ہوئے اپنی ’’آپ بیتی‘‘ میں لکھتے ہیں:۔
’’اس اس زمانہ میں افغانستان تعلیم میں بہت پسماندہ تھا، شاید کل آبادی میں سے صرف ایک فی صدی یا زیادہ سے زیادہ دو فی صدی لوگ لکھنا پڑھنا جانتے تھے، اور وہ بھی صرف پرانے مدرسوں کے پڑھے ہوئے تھے، پرانے بادشاہ غالباً اپنی رعایا کو تعلیم دینے سے ڈرتے تھے کہ کہیں ان کی آنکھیں نہ کھل جائیں اور وہ ان کی مطلق العنانی کے برخلاف بغاوت نہ کردیں، امیر حبیب اللہ خان (سراج الملۃ و الدین) کے زمانہ میں سارے ملک میں ایک سول مکتب (مکتبہ حبیبیہ کے نام سے) (HABIBYA HIGH SCHOOL) اور ایک فوجی سکول (مکتب حربیہ کے نام سے) موجود تھا، افغانستان میں نئی تعلیم اور موجودہ ترقی کی داغ بیل امیر حبیب اللہ خان ہی کے زمانہ میں ڈالی گئی، اور اگر وہ امیر عبدالرحمن خان (ضیاء الملۃ والدین) کے بعد افغانستان
------------------------------
۱۔ ظفر حسن صاحب کرنال (مشرقی پنجاب) کے رہنے والے ہیں، وہ گورنمنٹ کالج لاہور میں بی اے کے آخری سال میں تھے، جوش جہاد، انگریز دشمنی اور ہندوستان کی آزادی کے جذبہ سے سرشار ہوکر انہوں نے تعلیم اور ہندوستان کو خیر باد کہا، اور ہجرت کی نیت سے ۱۹۱۵ء میں کابل گئے، وہاں مولانا عبیداللہ صاحب سندھی کے ایک شاگرد و معاون اور جنرل نادر خاں کے معتمد علیہ اور دستِ راست بن کر کئی برس تک ہندوستان کی آزادی، اور افغانستان کی تعمیر و ترقی کے لئے جدوجہد کرتے رہے، انہوں نے فوجی اور سیاسی میدان میں نمایاں خدمات انجام دیں، ۱۹۲۲ء میں دائرہ عمل کے تنگ ہونے اور آزادی کے ساتھ کام نہ کرسکنے کی وجہ سے انہوں نے مولانا سندھی کے ساتھ کابل سے ترکی کا رخ کیا، ترکی میں آرٹلری کیپٹن کے عہدہ تک ترقی کی اور اس سے سبکدوش ہوئے ان کی نہایت دلچسپ سبق آموز اور چشم کشا آپ بیتی کا پہلا حصہ منصور بک ڈپو لاہور کی طرف سے ۱۹۶۴ء میں شائع ہوا ہے۔