حکیمانہ وصیت صرف جسمانی طور پر ہی غیرمسلموں کے اخراج پر اکتفا نہیں کرتی بلکہ وہ ان کے ہرقسم کے اثر و رسوخ، اور ان کی دعوت و ثقافت کے اخراج پر مشتمل ہے، جسے ہر ذی شعور سمجھ سکتا ہے۔
اس کے علاوہ اس جزیرے میں حرمین شریفین واقع ہیں، یہیں وہ بلدِ امین ہے، جہاں رسول اکرم ﷺ پیدا اور رسالت سے سرفراز ہوئے، اور جہاں حج کا فریضہ اور اس کے مناسک ادا کئے جاتے ہیں، اسی سرزمین میں وہ محبوب شہر (مدینہ) ہے، جہاں رسول اللہﷺ نے ہجرت فرمائی، جہاں آپ کی مسجد و درس گاہ بنی اور پہلا مثالی اسلامی معاشرہ برپا ہوا اور جہاں سے اسلامی دعوت اور اس کی فتوحات کا آغاز ہوا، یہ ایک عظیم اور ابدی ذمہ داری ہے، اس لئے اس ماحول کو اسلامی زندگی کا صحیح گہوارہ اور اس کا شفاف آئینہ ہونا چاہیے جہاں پہنچ کر ہر شخص کو محسوس ہونا چاہیے کہ وہ اسلام کے گہوارہ میں ہے، جہاں اس کے اصل مذاق و مزاج کی جھلک دیکھی جاسکتی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس سرزمین کو ہمیشہ کے لئے مرکز حج اور مسلمانوں کا سالانہ مرجع و ماویٰ بنا دیا ہے، اس لئے انہیں یہ یقین رکھنے کا پورا حق ہے کہ وہ ایک ایسے شہر کا قصد کررہے ہیں جو پاکیزگی کا معدن، دین کا گہوارہ، اور اسلام کا اخلاقی و روحانی دار السلطنت ہے، اور قدرتی طور پر اسلام دشمن رجحانات اور اس کی تعلیم کے مخالف اثرات سے اتنا دور ہے، جس کا عہد حاضر میں تصور کیا جاسکتا ہے، اور اس نے مغربی تہذیب کے آگے عالم اسلام سے دور افتادہ کسی ملک کی طرح ہتھیار نہیں ڈالے جو اس امتیاز اور ذمہ داری کا حامل نہیں۔
اس منصوبہ بندی میں سادگی، اصلیت اور کسی قدر زہد و تقشف کی رعایت بھی رہنی چاہیے جس سے دور دراز مقامات سے آنے والے اس ماحول اور فضا کو محسوس کرسکیں جس میں اگلے مسلمان اپنا حج ادا کرتے تھے، اور ان میں ان جیسا شعور بیدار رہے، ایسا نہ ہو کہ حرم شریف ہی