استناد و صحت اور اپنے محکم استدلال میں مستشرقین کی کتابوں سے کہیں فائق و ممتاز ہوں، ان میں ان کی تمام خوبیاں ہوں، اور وہ ان کی کمزوریوں اور عیوب سے پاک ہوں، دوسری طرف ان مستشرقین کی کتابوں کا علمی محاسبہ کیا جائے اور ان کی تلبیسات کو بے نقاب کیا جائے، متن کو سمجھنے میں ان کی غلط فہمیوں اور ترجمہ و اخذ مطلب میں ان کی غلطیوں کو واضح کیا جائے، ان کے مآخذ کی کمزوری اور ان کے اخذ کئے ہوئے نتائج کی غلطی کو روشن کیا جائے، اور ان کی دعوت و تلقین میں ان کی جو بدنیتی، مذہبی اغراض اور سیاسی مقاصد شامل ہیں، ان کو طشت از بام کیا جائے اور بتایا جائے کہ یہ اسلام اور ملت اسلامیہ کے خلاف کیسی گہری اور خطرناک سازش ہے۔
اس پہلے مثبت و ایجابی کام (اسلامی موضوعات پر تصنیف) اور اس دوسرے سلبی و جوابی جزو (علمی محاسبہ) کے بغیر دنیائے اسلام کا ذہین و حوصلہ مند طبقہ جو یورپ و امریکی کی بلند پایہ یونیورسٹیوں یا اپنے ملک کی اعلی تعلیم گاہوں میں تعلیم پاتا ہے، اور مغربی زبانوں ہی میں (جن میں وہ زیادہ مہارت رکھتا ہے) اسلامی لٹریچر کا مطالعہ کرنا چاہتا ہے، مستشرقین کے زہر آلود خیالات کے اثر سے آزاد نہیں ہو سکتا، اور جب تک اس اثر سے آزاد نہ ہو اسلامی ممالک برابر فکری انتشار اور ذہنی ارتداد کے خطرہ سے دو چار رہیں گے، اور ان ممالک میں تجدد و مغربیت کے علمبردار برابر ان خیالات کا اظہار کرتے رہیں گے، اور جب اقتدار ان کے ہاتھ میں آئے گا تو ان کو بروئے کار لانے کی کوشش کریں گے، جو اسلام کی روح کے منافی ہیں، اور ایک ایسے معاشرہ کی تشکیل کرتے ہیں، جو صرف نسل و قومیت میں قدیم اسلامی معاشرہ سے مشابہت رکھتا ہے، اور جس کا رخ مغرب اور خالص مادیت کی طرف ہو گا اور جس کو دیکھ کر کم سے کم عالم اسلام