ہونے کے بعد ان کو خیرباد کہنے پر مجبور ہوئے اور اس سے بہتر اور وسیع نظریہ اور فلسفہ کے سایہ میں پناہ لی۔
اس کی سب سے اچھی مثال قومیت (NATIONALISM) ہے، جس کو اب یورپ ترک کر چکا ہے۔ لیکن مشرق اسلامی کی بعض قیادتیں اس کو اب بھی سینہ سے لگائے رکھنے پر مصر ہیں اور اس کو انسانی فکر کی پرواز اور ترقی کی آخری شکل سمجھتی ہیں، حالانکہ وہ محدود قبائلی زندگی اور بدویانہ طرز فکر کی ایک وسیع تر اور ترقی یافتہ شکل تھی، وہ دراصل ایسا لباس کہنہ ہے، جس کو خود اہل مغرب نے اتار کر پھینک دیا ہے، اب ان کے نزدیک وہ تخریبی اور تباہ کن عنصر اور قوت ہے، جس نے انسانی معاشرہ کی وحدت کو پارہ پارہ کر دیا ہے، اور نسل انسانی کی شکل و صورت بگاڑ دی ہے۔
مغرب و مشرق کے بالغ نظر کہن سال اور آزاد مفکرین و اہل نظر اب قوم پرستی (نیشنلزم) کو نفرت و حقارت کی نظر سے دیکھنے کے عادی ہو گئے ہیں، وہ اس کو زمانہ قدیم کا ایک پرانا فیشن اور رجعت پسندی و قدامت پرستی کا ایک نشان تصور کرتے ہیں، اور اس کو انسانیت اور امن عالم کے حق میں سب سے بڑا مہلک اور تخریبی عنصر سمجھتے ہیں، اور انسانی وحدت اور عالمگیر برادری کے قیام کے داعی ہیں، یہاں عبرت کے لئے دو عظیم مغربی و مشرقی مفکرین کی رائے پیش کی جاتی ہے، ان میں ایک مشہور مغربی فاضل آرنلڈ ٹائنبی (ARNOLD TOYNBEE) ہیں، دوسرے ہندوستان کے مشہور فلسفی و مفکر، سابق صدر جمہوریہ ہند ڈاکٹر رادھا کرشنن ہیں، ٹائنبی اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں:
"انسانیت کا مستقبل اس روحانی اخوت پر منحصر ہے جسے کوئی مذہب ہی تشکیل دے سکتا ہے، نوع انسانی کو آج اسی کی احتیاج ہے، کمیونزم کا دعویٰ ہے کہ وہ نوع انسانی کو متحد کر سکتا ہے، اسلام افریقہ میں اپنے آپ کو نوع انسانی میں اتحاد پیدا کرنے والی ایک قوت ثابت کر رہا ہے، عیسائیت بھی یہی کردار ادا کر سکتی ہے، بشرطیکہ وہ اپنے اصولوں کو برت کر دکھائے۔