کسی اسلامی علم کی تحصیل اس عمر میں نہیں کی، جس میں مہارت پیدا کی جا سکتی تھی، اب ضروری سوال یہ رہ جاتا ہے کہ جو شخص اس قسم کے اسلام دشمن خیالات رکھتا ہے، وہ دائرہ اسلام میں باقی بھی رہ سکتا ہے یا نہیں، اور کیا اسے ایک اسلامی اکثریت کے ملک پر حکمرانی کا حق حاصل ہے؟
صدر کی ان تصریحات نے دنیا کے اسلامی اور دینی حلقوں میں جو شدید رد عمل پیدا کیا، وہ اس سوال کا بہترین جواب تھا (۱)۔ مذکورہ بالا تین اعتراضات کے علاوہ جو صدر کے بیان میں ہیں، ان کے ان افکار سے جو حیات نبی صلے اللہ علیہ و سلم، عقائد اسلامیہ اور طریقہ ہائے عبادت کے متعلق ہیں، یہ معلوم ہوتا ہے کہ صدر موصوف نہ صرف یہ کہ اسلام کے بنیادی اصولوں و مبادی اور شریعت سے متفق نہیں، بلکہ وہ مسلمانان تیونس کو بھی اسی طرف لے جانا چاہتے ہیں، اور ان کے دلوں پر بھی دینی عقائد و حقائق کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کر دینا چاہتے ہیں۔ اس واقعہ سے اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ وہ تیونس کو کدھر جا رہا ہے، جس نے ابن خلدون جیسا بلند پایہ اسلامی مفکر، دانشور اور عالم پیدا کیا تھا اور جس کی خاک سے صدہا محدثین، فقہاء اور مشائخ و اولیاء اللہ پیدا ہوئے۔ ہم جانتے ہیں کہ صدر بورقیبہ کے بیان پر وہاں کے اسلامی حلقوں میں شدید رد عمل نہ ہونے کے بعد تیونس کو ایک مغربی نمونے کا ملک بنانے کا خطرہ اور بڑھ گیا ہے۔
------------------------------
۱۔ اتفاق سے اس زمانہ میں جامہ اسلامہ مدینہ منورہ (مدینہ یونیورسٹی) کی اعلیٰ تعلیمی کمیٹی کا اجلاس ہو رہا تھا، جس میں ممالک اسلامیہ و عربیہ کے چیدہ ماہرین تعلیم اور دانشگاہوں کے سربراہ جمع تھے۔ راقم سطور بھی اس کا رکن ہونے کی وجہ سے موجود تھا۔ اس موقعہ پر ایک علیٰحدہ نشست میں ان بیانات کا جائزہ لیا گیا، شرکائے مجلس نے ان پر اپنی سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا، پھر ایک برقیہ کے ذریعہ صدر بورقیبہ کو علماء کے اس نقطہ نظر کی اطلاع دی گئی۔ اس میں یہ اشارہ موجود تھا کہ ایسے خیالات کا حامل دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔