پر نظر رکھنے والوں کا پورا کنٹرول نہیں ہے، اور ملک میں نو عمر اور جذباتی رحجان رکھنے والے عناصر کا تسلط ہے، اسی طرح امامت اور ائمہ کے بارے میں ان کے بعض ایسے بیانات سامنے آئے ہیں، جن سے مقام نبوت کی تنقیص، اور بلا استثناء انبیاء کے اپنے مقاصد کی تکمیل میں ناکام رہنے کا نتیجہ نکلتا ہے۔ ۱؎
اصلاحات کے سلسلہ میں بھی بعض اقدامات میں جلد بازی سے کام لیا گیا، جس سے رد عمل پیدا ہوا اور اسلام دشمن طاقتوں کو شماتت کا موقع ملا، شریعت کے احکام کے نفاذ میں انھوں نے سنّی اقلیت کے احساسات کی رعایت نہیں کی جس کی وجہ سے سنّیوں سے ٹکراؤ کی صورت پیدا ہوگئی، اس کی وجہ سے اتحاد کی وہ شکل ملک میں باقی نہ رہی جو تحریک کے زمانہ میں نظر آتی تھی۔
خمینی کی انقلاب کی کوشش میں کامیابی، اور اسلامی حکومت کی تاسیس کی وجہ سے ان کو عالم اسلام کے بعض حلقوں میں امام کا درجہ اور مقام دیا گیا اور بعض حلقوں میں ان کو شیخ حسن البنّا اور مولانا مودودی کا ہم پلہ قرار دیا گیا، لیکن آنے والے دن بتائیں گے کہ انفرادی اور اجتماعی طور پر فکری اصلاح میں وہ کہاں تک کامیاب ہوتے ہیں، اور ان کی جدو جہد محض حکومت قائم کرنے یا ایک جابر حکومت کے خلاف بغاوت کرنے تک محدود رہتی ہے، یا ایران کے عوام میں فکری انقلاب بھی ظہور پذیر ہوتا ہے، جو حقیقت میں دعوت اسلام کا مقصد اصلی ہے۔
ابھی ایران کے حالات میں پورے طور پر استقرار پیدا نہیں ہوا تھا، کہ دفعتًا اکتوبر ۱۹۸۰ ء میں عراق نے اس پر حملہ کر دیا، ایران کی دفاعی طاقت پہلے سے کمزور ہوچکی تھی، اس حملہ نے اس کے اقتصادیات کو بھی بری طرح سے متاثر کیا، ابھی نہیں کہا جا سکتا کہ وہ اس خطرہ سے کب اور کہاں تک عہدہ بر آہو سکے گا، اور دنیا کے سیاسی و اخلاقی نقشہ میں اپنا وہ مخصوص کردار ادا کر سکے گا جس کے لئے اس نے ایسی زبردست قربانی دی۔
------------------------------
۱؎ ان سطور کی تحریر تک اس کی کوئی تردید سامنے نہیں آئی ہے۔