سائرس سے کیا، اس کے لیے انہوں نے ایک تاریخی جشن منایا اور اس پر اربوں روپیہ خرچ کیا، اسلامی کیلنڈر کے بجائے قدیم ایرانی کیلنڈر رائج کیا۔
ایرانی عوام ہمیشہ سے اپنے علماء سے وابستہ رہے ہیں، اس لیے شاہ ایران کی ترقی پسندانہ پالیسیوں کی سب سے زیادہ مخالفت علماء ہی کی طرف سے ہوئی، علماء کے اثر کو ختم کرنے کے لیے شاہ ایران نے اوقاف کے نظام میں تبدیلی کی، بااثر علماء کو جلاوطن کردیا، بڑی تعداد میں علماء گرفتار کیے گئے، اور اسلام کے احیاء کے لیے جدوجہد کرنے والوں کو سزائیں دی گئیں، اور ہزاروں کی تعداد میں جانی نقصان ہوا، لیکن اس تشدد نے عوام کے جذبات میں اور شدت پیدا کردی، پھر آیۃ اللہ خمینی کی قیادت میں جو پیرس میں جلاوطنی کی زندگی گذار رہے تھے، ایرانی عوام نے عظیم قربانی دے کر شاہ ایران کو ملک چھوڑنے پر مجبور کردیا اور یکم اپریل ۱۹۷۹ء کو ایران میں اسلامی حکومت کی بنیاد پڑی۔
آیۃ اللہ خمینی کی محیرالعقول کامیابی کی مختلف حلقوں میں مختلف توجیہات کی جاتی ہیں، شروع میں اس انقلاب کو یساری (LEFTIST) انقلاب کہا گیا، شاہ ایران نے بھی اس کو یساری تحریک کہہ کر کچلنے کی کوشش کی تھی، لیکن انقلاب کے فوراً بعد جو طاقت آزمائی ہوئی اس میں اسلامی عنصر جس کی قیادت علماء کررہے تھے، غالب آگیا اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس تحریک کے پیچھے صرف اسلامی عنصر تھا۔
ایرانی علماء کے شعور اور قوت تنظیم اور عوام پر ان کی گرفت اور کنٹرول انقلاب کی کامیابی کے اہم اسباب ہیں، جس کو کسی حال میں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، اس کے ساتھ عوام کی ان کے ساتھ وابستگی اور ان کے راستے میں بے دریغ قربانی دینے کا جذبہ اپنی مثال نہیں رکھتا۔