کو قرار نہیں دیا جاسکتا، محض شاہی نظام بھی اس کا سبب نہیں ہوسکتا اس لیے کہ بعض ترقی یافتہ ملکوں میں شاہی حکومت موجود ہے، اور وہاں کوئی بیزاری نہیں پائی جاتی، اس لیے محض شاہی نظامِ حکومت کو اس سیاسی اُبال کا سبب نہیں قرار دیا جاسکتا، یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ایرانی قوم کے مزاج میں شخصیت پرستی کا اثر ہر دور میں پایا گیا ہے اور شاہی نظام اس مزاج کے عین مطابق تھا، پھر آخر اس سیاسی تحریک کا سبب کیا تھا؟
سیاسی جدوجسد میں جو نعرہ سب سے زیادہ موثر ثابت ہوا اور جس نے پورے ملک کو شاہ ایران کے خلاف صف آرا کیا وہ نعرہ اسلامی نظام قائم کرنا تھا، اس نعرہ کی ضرب شاہی نظام پر اتنی نہیں پڑتی تھی، جتنی شاہ ایران کی مذہب مخالف سیاست پر اس کی ضرب پڑتی تھی، شاہ ایران کی علیٰحدگی اس نظام کو قائم کرنے کے لیے محض ایک وسیلہ تھی اس لیے کہ ملک میں مذہب اور اسلامی ثقافت کے خلاف جو رجحان پیدا ہوا تھا، وہ شاہ ایران اور ان کے ہم نشینوں کی مغرب کی غلامی کے نتیجہ میں پیدا ہورہا تھا۔
شاہ ایران جن کی تربیت غیر اسلامی ماحول میں ہوئی تھی، مغرب کی ثقافت اور اس کے تصور حیات کو ایران میں رائج کرنا چاہتے تھے اور ایران کو اسی رنگ میں رنگنا چاہتے تھے، انہوں نے اپنے عہد میں ایسے کئی اقدامات کیے جسن سے مذہبی رہنماؤں کو اس کا پوری طرح سے اندازہ ہوگیا کہ وہ ایران سے مذہبی رجحان کو پوری طرح سے مٹانا اور اسلامی شخصیت کو ختم کرنا چاہتے ہیں، یہودیوں اور بہائیوں پر پورا اعتماد کرکے انہوں نے ملک کا نظام، اسلام دشمن طاقتوں کے ہاتھ میں دے دیا تھا، قوم کا اسلام سے رشتہ ختم کرنے کے لیے جس طرح مصر کے حکمرانوں نے اپنا فراعنۂ مصر سے انتساب کیا تھا، اسی طرح شاہ ایران نے اپنا انتساب