سیاسی ترکیبوں سے کام لیا، انہوں نے مذہبی پیشواؤں کی صاف صاف مزاحمت کرنے کی بجائے ان کو نظرانداز کرنا زیادہ مناسب سمجھا۔
جدید عصری تعلیمی نظام کو قائم کرنے اور عورتوں میں آزادی و بیداری پیدا کرنے کے لیے جو کوشش بھی کی جاتی اس کا انحصار اس پر تھا کہ مذہبی پیشواؤں کا اثر و رسوخ کم ہو، اس میدان میں جنگ کے دوران میں خاصا کام کرلیا گیا۔
۱۹۳۰ء سے پرائمری اور سکنڈری اسکولوں میں دینیات کی تعلیم لازمی نہیں رہی اور نصاب تعلیم میں حب الوطنی اور شہریت کا احساس پیدا کرنے پر زور دیا گیا، کھیلوں کی ہمت افزائی کی گئی، متعدد نئے طرز کے اسٹیڈیم (STADIUM) بڑے بڑے شہروں میں بنائے گئے، حکومت نے بوائے اسکاؤٹ (BOY SCOUT) اور گرل گائڈ (GIRL GUIDE) تنظیموں میں شرکت نوجوانوں کے لیے لازمی قرار دی تاکہ نئی نسل میں قوم پرستی کی روح بیدار ہو، ان سرگرمیوں نے کھلے طریقہ پر ملک کے نوجوانوں کو مذہبی مشاغل اور مذہبی طریقہ پر سوچنے سے دور کردیا، ١۹۲۸ء میں مشرقی لباس کی ممانعت کرکے مذہبی اثر و نفوذ پر انہوں نے کاری ضرب لگائی، ترکی ٹوپی اور پگڑی کی جگہ پہلے پہلوی ہیٹ نے لی پھر کچھ عرصہ کے بعد یورپین ہیٹ اس کی جگہ آگئی، شاہ نے عورتوں میں آزادی اور بیداری پیدا کرنے کے لیے مختلف طریقے اختیار کیے، ان کے ایماء اور اثر سے پارلیمنٹ نے طلاق دینے کے اختیار کو جو مردوں کو کلی طور پر حاصل تھا محدود ومقید کردیا، عورتوں کو مختلف دفاتر اور محکموں میں ملازمت کرنے کی آزادی حاصل ہوگئی، اگرچہ سیاسی تقریبات میں ان کو نمائندگی کا اب بھی اختیار نہیں تھا، فوجی افسروں اور سرکاری عہدیداروں کو ہدایات دے کر عورتوں کے مغربی لباس اختیار کرنے کی ہمت افزائی کی گئی، ١۹۳۵ء میں خود ملکہ ایران