(THE MIDDLE EAST IN WORLD AFFAIRS) میں تاریخی طور پر اس کی روداد پیش کی ہے:۔
’’رضا شاہ کے اصلاحی منصوبے ایران کی صنعتی ترقی کے دائرہ تک محدود نہیں تھے، انہوں نے ملک کو تعلیمی ۔۔۔۔ اور معاشرتی میدانوں میں بھی عصرِ جدید کے مطابق اور ماڈرن (MODERN) بنانے کی کوشش کی، ١۹۲۷ء میں انہوں نے فرانس کا عدالتی نظام اور قانون جاری کیا، اس طرح انہوں نے معاشرتی اور شہری معاملات میں ملکی عدالتوں کی اہلیت اور لیاقت کو چیلنج کیا، ملک کو سیکولر بنانے کا رجحان صاف نمایاں تھا، لیکن یہ بات اس نسبت سے کھل کر کبھی سامنے نہ آئی جیسی ترکی میں تھی، انہوں نے محسوس کرلیا تھا کہ ’’غیر ترقی یافتہ‘‘ شیعہ علماء کا اثر ونفوذ ملک کو مغربیت کے سانچہ میں ڈھالنے کے کام میں سدِّراہ ہے، انہوں نے احتیاط کے ساتھ قدم اٹھایا، اس ہنگامہ واحتجاج کی ناکامی سے جو ١۹۲۴ء میں جمہوریت کی حمایت میں ہوا تھا، نیز ہمسایہ ملک (افغانستان) کے حکمران امیر امان اللہ خاں کی اس ناکامی سے جو ان کو اپنی اصلاحات میں اٹھانی پڑی تھی، انہوں نے یہ سبق لیا کہ جو ایک نیم مغربی ملک ترکی میں ممکن تھا، وہ ابھی ایران میں ممکن نہیں، مزید برآں ایران کے دستور میں یہ بات صراحت کے ساتھ موجود تھی کہ ایران کا سرکاری مذہب اسلام ہے اور اس کا مستند فرقہ جعفریوں کا ہے، شاہ ایران کو اسی عقیدہ کا پیرو اور مبلغ ہونا چاہیے، اسی طرح سے اس دستور کی رو سے ’’مجلس ایران‘‘ (ایرانی پارلیمنٹ) کو کسی ایسے قانون کو منظور کرنے کا اختیار نہیں جو اسلام کے اصول کے خلاف ہو، کسی قانون کے منظور کرنے کے لیے ماہرین دینیات کا اس کاروائی میں شریک ہونا ضروری ہے، ان مراحل سے گذرنے کے بعد یہی قانون لازمی ہوگا، شاہ کو اس بات کا احساس تھا کہ وہ کھلے طریقے پر ان قانونی دفعات کی خلاف ورزی نہیں کرسکتے، اس کے نتیجے میں انہوں نے سامنے آکر حملہ کرنے کی بجائے