عقل وتدبر کے استعمال پر بڑا زور دیا ہے، اور مفید علوم میں استفادہ کی ترغیب دی ہے، جس نے دین کی حفاظت ودفاع کےلئے اور بداندیشوں اور حریفوں کے اپنے اوپر حملہ کرنے سے محتاط رکھنے کے لئے اپنے پیروؤں کو ہر ممکن تیاری کا حکم دیا ہے، قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:۔
إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآيَاتٍ لِّأُولِي الْأَلْبَابِ ﴿١٩٠﴾ الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّـهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىٰ جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَـٰذَا بَاطِلًا سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ﴿١٩١﴾ (سورۃ آل عمران: ۱۹۰، ۱۹۱)
بلاشبہ آسمان وزمین کی خلقت میں اور رات اور دن کے ایک کے بعد ایک آتے رہنے میں اربابِ دانش کے لئے (معرفتِ حق کی) بڑی نشانیاں ہیں، وہ اربابِ دانش جو کسی حال میں اللہ کی یاد سے غافل نہیں ہوتے کھڑے ہوں بیٹھے ہوں لیٹے ہوں (لیکن ہرحال میں اللہ کی یاد ان کے اندر بسی ہوتی ہے) اور جن کا شیوہ یہ ہوتا ہے کہ آسمان و زمین کی خلقت پر غور کرتے ہیں (اس ذکر و فکر کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان پر معرفتِ حقیقت کا دروازہ کھل جاتا ہے، وہ پکار اٹھتے ہیں) اے ہمارے پروردگار! یہ سب جو تو نے پیدا کیا ہے سو بلاشبہ بیکار و عبث نہیں پیدا کیا ہے، یقیناً تیری ذات اس سے پاک ہے کہ ایک فعلِ عبث اس سے صادر ہو، خدایا! ہمیں عذابِ آتش سے (جو دوسری زندگی میں پیش آنے والا ہے) بچالیجیو!
دوسری جگہ قرآن شریف میں ہے:۔
وَأَعِدُّوا لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ وَمِن رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّـهِ وَعَدُوَّكُمْ ﴿٦٠﴾ (سورہ الانفال: ۶۰)
اور (مسلمانو) جہاں تک تمہارے بس میں ہے قوت پیدا کرکے اور گھوڑے تیار رکھ کر دشمنوں کے مقابلہ کے لئے اپنا سازوسامان مہیا کئے رہو کہ اس طرح مستعد رہ کر تم اللہ کے اور اپنے دشمنوں پر دھاک بٹھائے رکھو گے