مہم میں مصروف ہیں،وہ اپنی تحریروں اور ادبی وعلمی مباحث کے راستہ سے دینی عقائد،تاریخی مسلمات، اسلامی شخصیات، اخلاقی قدروں، اجتماعی اصولوں اور اخلاق عامہ سب چیزوں کو مشکوک اور ناقابل اعتبار قرار دے رہے ہیں، نہ صرف ان کے اسالیب بیان بلکہ ان کے محرکات وعوامل بھی اکثر مختلف ہوتے ہیں کبھی وہ یہ کام محض تجدد پسندی کے شوق اور یورپ کی انتہا پسندانہ تقلید میں کرتے ہیں ،کبھی محض شہرت طلبی اور جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں میں ہر دلعزیز و مقبول ہونےکےلیے اور کبھی تجارتی ذہن کے ساتھ اپنی کتابوں کی اشاعت اور مالی منفعت کے حصول کےلیے کبھی اسکے پیچھے عجلت پسندی اور جلد چھپنے کا شوق ہوتا ہے،البتہ عیسائی ادباء و مصنفین کے مقاصداس سلسلہ میں زیادہ دوررس واقع ہوئے ہیں،ان کا خاص مقصد یہی ہوتا ہے کہ اسلام کے بارہ میں شبہات پیدا کئے جائیں اور اس پر اعتماد متزلزل کیا جائے،مصر میں نشرو اشاعت کی طاقتور تحریک اور بڑے بڑے اشاعتی اداروں کی موجودگی سے ان کے کام میں بڑی سہولت پیدا ہوئی اور ان کے کام کی رفتار تیز ہوگئی، مستزاد یہ کہ یہ اشاعتی ادارے زیادہ تر عیسائی یا مارونی لوگوں کے ماتحت چل رہے ہیں، اور دوسری طرف پورا عالم عربی مصر سے شائع ہونے والی ہر چیز کو (قطع نظر اس کے کہ وہ اچھی ہو یا بری) ہاتھوں ہاتھ لینے کےلیےہمہ وقت تیار رہتا ہے۔
اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مصر میں نئی نئی مطبوعات و تصنیفات کا ایک سیلاب امنڈ پڑا ہے، یہ مطبوعات زیادہ تر جدید ترین اسلوب اور طباعت کے اعلی معیار کی حامل ہوتی ہیں، نئی نسل ان نئی کتابوں پر نہ صر ف فریفتہ ہے، بلکہ اس کی صدائے بازگشت بن گئی ہے،اور اس کے راستہ سے نہ صرف مصر بلکہ دوسرے تمام عربی ممالک میں بھی ایک زبردست فکری انتشار پیدا ہو گیا ہے ،وہ بنیادیں بلکل متزلزل ہوگئی ہیں جن پر وہ باشعور وباصلاحیت معاشرہ قائم ہو سکتا تھا،جس کو اپنے عقیدہ، شخصیت، اور تاریخ پر ناز ہو اور اس کو کار زار حیات میں قوت مقابلہ، ثابت قدمی،