تحریک سے بڑی امید تھی کہ وہ مشرق وسطیٰ میں اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کے کام کی تکمیل کرسکے گی۔
’’الاخوان المسلمون‘‘ کی تحریک و تنظیم میں اس کارِ عظیم کی کہاں تک صلاحیت تھی، اور اس نے اپنے حدود و امکانات کے اندر کہاں تک اس کے تقاضوں کو پورا کیا؟ اس بارے میں بہت سے لوگوں کو شبہ ہے، مناسب ہوگا کہ اس موقع پر ایک ایسے مغربی مبصر کا تاثر پیش کردیا جائے جو اخوان کا ہمدرد یا وکیل نہیں، پروفیسر اسمتھ (W. C. SMITH) اخوان کی تحریک پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے:۔
’’الاخوان المسلمون‘‘کو شروع سے آخر تک رجعت پسند سمجھ لینا ہمارے نزدیک غلط ہوگا کیونکہ اس میں عدل اور انسان دوستی کی بنیاد پر ایک جدید سوسائٹی قائم کرنے کی قابل تعریف تعمیری کوشش بھی شامل ہے، جو قدیم روایات کی بہترین اقدار سے ماخوذ ہے، وہ جزوی طور پر ایک ایسی قوتِ فیصلہ کی حامل ہے جو اس زوال و پستی کا خاتمہ کرسکتی ہے، جہاں عرب سوسائٹی پہونچ چکی ہے، ایک مکمل غیر منظم اجتماعی موقع پرستی جو شخصی بے عنوانی اور بددیانتی کے ساتھ وابستہ ہے، وہ سوسائٹی کی ان بنیادوں کی طرف واپس لوٹنا چاہتی ہے، جو متفقہ ومسلمہ اخلاقی اقدار اور متوازن و ہم آہنگ نقطۂ نظر پر قائم ہیں، اور ایسا عملی پروگرام پیش کرنا چاہتی ہے، جس کے ذریعہ پسندیدہ مقاصد کو زیادہ منظم، زیادہ باضابطہ اور پرجوش عینیت پرستوں (IDEALISTS) کے ہاتھوں عملی جامہ پہنایا جاسکتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ وہ اس فیصلہ کی بھی حامل ہے جس کے ذریعہ وہ ایک ناقابل فہم اور ناقابل عمل جامد اور خالص روحانی معیار (آئیڈیل) کی غیر عملی تعظیم و عقیدت کا خاتمہ کرسکتی ہے، وہ اسلام کو خالص بے حس اور مردہ عقیدتمندوں اور پرستاروں کی جذباتی گرمجوشی یا پیشہ ور روایت پرستوں کے