دیکھا جا سکتا ہے، ان کے بعد تجدد کے جو داعی پیدا ہوئے انہوں نے عام طور پر انہیں کی کتابوں سے استفادہ کیا اور انہیں کا حوالہ دیا، مصر کے برطانوی ناظم اعلی لارڈ کرومر نے اپنی کتاب (MODERN EGYPT) میں شیخ محمد عبدہ کے اس رحجان اور اس کی افادیت کا صاف طریقہ پر اظہار کیا ہے، وہ لکھتے ہیں :
"محمد عبدہ مصر کے جدید ذہنی مکتب خیال کے بانی تھے، یہ مکتب خیال ہندوستان کے اس مکتب خیال سے بہت مشابہت رکھتا ہے جو علی گڑھ یونیورسٹی کے بانی سر سید احمد خاں نے قائم کیا تھا۔"
آگے چل کر لکھتے ہیں :
"ہمارے نقطہ نظر سے مفتی محمد عبدہ کی سیاسی اہمیت کی وجہ یہ ہے کہ وہ اس خلیج کو پاٹنے کے لئے کوشاں ہیں جو مغرب اور مسلمانوں کے درمیان پڑ گئی ہے، وہ اور ان کے مکتب خیال کے پیرو اس کا استحقاق رکھتے ہیں کہ ان کو ہر ممکن مدد دی جائے، اور ان کی ہمت افزائی کی جائے، اس لئے کہ وہ یورپین ریفارمر کے قدرتی حلیف اور معاون ہیں۔" (۱)
اسی طرح نیومین اپنی کتاب "برطانیہ عظمیٰ" (GREAT BRITAIN) میں شیخ محمد عبدہ کے تلامذہ اور پیرؤں کے متعلق اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتا ہے :
"ان کا پروگرام اس سب کے علاوہ یہ تھا کہ مغربی تہذیب کو مصر میں داخل کرنے کے کام میں غیر ملکیوں کے ساتھ تعاون کرنے کی حوصلہ افزائی کی جائے، یہی وجہ تھی کہ لارڈ کرومر نے مصری وطن پرستی کے قیام کے بارے میں اپنی ساری امید اسی گروہ پر مرکوز کر دی اور اسی بناء پر انہوں نے (مفتی محمد عبدہ کے معتمد) سعد زغلول پاشا کو وزیر تعلیم مقرر کیا۔" (۲)
------------------------------
۱۔ MODERN EGYPT, P.P. 179 - 180.
۲۔ MODERN EGYPT, P 165.