میں بڑی گہری بصیرت کے ساتھ ساتھ طرح طرح کے انسانوں اور ان کی عادات وخصائل کو خوب خوب تجربہ رکھتے تھے، ان کا مطمح نظر بڑا وسیع تھا، اور اس لئے یہ کوئی مشکل بات نہیں تھی کہ ان کی ذاتِ گرامی ماضی اور مستقبل کے درمیان ایک جیتا جاگتا رشتہ بن جاتی، ان کی اَن تھک کوششیں اگر صرف اسی امر پر مرکوز رہتیں کہ اسلام نے نوعِ انسانی کو جس طرح کے عمل اور ایمان کی تلقین کی ہے، اس کی نوعیت کیا ہے تو آج ہم مسلمان اپنے پاؤں پر کہیں زیادہ مضبوطی کے ساتھ کھڑے ہوتے۔‘‘ ۱؎
لیکن عام طور پر عالم اسلام کے اور خاص طور پر مصر کے حالات نے (جہاں جمال الدین افغانی نے اپنی عمر کا بہترین حصہ صرف کیا اور اس کو اپنی ذہنی و فکری سرگرمیوں کا مرکز بنایا) اور ان کے مخصوص مزاج نے (جس میں ان کی ذہانت غیرمعمولی اسلامی حمیت اور افغانی خودداری اور جوش کو بڑا دخل تھا) عالم اسلام کی سیاسی و تنظیمی ترقی اور اس کی آزادی و خودداری اور وحدت و ہم آہنگی اور غیرملکی اقتدار اور برطانوی حکومت کے خاتمہ کے سوا کسی اور چیز کی طرف توجہ کی مہلت نہ دی اور ان کی ساری جدوجہد اور سرگرمیوں پر سیاسی رنگ غالب رہا، ان کی نفسیات کی ترجمانی اور ان کی دعوت اور مشن کا خلاصہ ان کے شاگرد ارشد شیخ محمد عبدہٗ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:۔
’’جہاں تک ان کے سیاسی مقصد کا تعلق ہے اور جس کی طرف انہوں نے اپنی زمام افکار موڑی تھی، اور اپنی ساری زندگی اس جدوجہد میں صرف کی تھی، اور اس راستہ میں ہرقسم کی مصیبت اور تکلیف برداشت کی تھی، وہ اسلامی حکومت کے ضعف کو دور کرنا اور اس کو بیدار کرنا ہے تاکہ وہ دنیا کی غالب اور طاقتور اقوام کے شابہ بشانہ آگے بڑھ سکے، اور
------------------------------
۱۔ تشکیل جدید الہٰیاتِ اسلامیہ خطبہ نمبر۴، ص: ۱۴۵، ۱۴۶