نہ اس کا اندازہ ہوتا ہے کہ مغربی تہذیب اور اس کے افکار و اقدار کے بارے میں ان کی ذاتی رائے اور تاثر کیا تھا، ۱؎ مغربی تہذیب اور اس کے مادی فلسفوں کا مقابلہ کرنے، ان پر تنقید کرنے اور مشرق کو مغرب کے فکری اقتدار واثر سے محفوظ رکھنے کی ان میں کتنی صلاحیت تھی، اس کے متعلق یقینی طور پر کچھ کہنا مشکل ہے، ان کی مختصر کتاب ’’الرد علی الدھریین‘‘ سے اس کا اندازہ کرنا دشوار ہے، لیکن علامہ اقبال کا ان کے متعلق بہت بلند خیال تھا، ان کے نزدیک مغربی تہذیب کے ارتقاء نے عالم اسلام میں جو ذہنی انتشار پیدا کردیا تھا، اس کو دور کرنے اور ایک طرف اسلام کے قدیم اعتقادی، فکری و اخلاقی نظام، دوسری طرف عصرِ جدید کے نظام کے درمیان جو وسیع خلا پیدا ہوگیا تھا، اس کو پر کرنے کے کام کے لئے سید جمال الدین افغانی کی شخصیت بہت مفید اور مؤثر ثابت ہوسکتی تھی، اور ان کا وسیع اور اخاذ ذہن اس کی فطری صلاحیت رکھتا تھا، علامہ اقبالؒ نے اپنے ایک خطبہ میں غالباً اسی بات کو پیش نظر رکھ کر فرمایا:
’’ہم مسلمانوں کو ایک بہت بڑا کام درپیش ہے، ہمارا فرض ہے، ماضی سے اپنا رشتہ منقطع کئے بغیر اسلام پر بحیثیت ایک نظام فکر از سرنو غور کریں، اس عظیم الشان فریضے کی حقیقی اہمیت اور وسعت کا پورا پورا اندازہ تھا، تو سید جمال الدین افغانی کو جو اسلام کی حیاتِ ملی اور حیاتِ ذہنی کی تاریخ
------------------------------
۱۔ پچھلے چند برسوں سے عربی میں ایسے مضامین، خطبات اور کتابوں کا سلسلہ شروع ہوا ہے جنہوں نے سید جمال الدین افغانی اور ان کے تلمیذ رشید مفتی محمد عبدہٗ کی شخصیتوں، عقائد و سیاسی مقاصد اور تعلقات کے بارے سنگین شکوک وشبہات پیدا کردئیے ہیں، ان میں ڈاکٹر محمد محمد حسین (صدر شعبۂ عربی اسکندریہ یونیورسٹی) کے لیکچر جو انہوں نے کویت میں دئیے اور غازی التوبہ کی کتاب ’’الفکر الاسلامی المعاصر‘‘ کا نام خاص طور پر لیا جاسکتا ہے، شیخ محمد عبدہٗ کے خطوط کا جو عکسی مجموعہ حال میں ایران سے شائع ہوا ہے، ان سے ان شبہات کی تقویت ہوتی ہے۔