تحریریں اعتماد اور طاقت سے پُر ہوتی تھیں، اور اس معذرت آمیز اور مدفعانہ لہجہ اور طرز سے پاك جو اس دور سے پہلے كے مسلمان اہلِ قلم اور مصنفین كا شعار بن گیا تھا، انھوں نے اپنے ابتدائی دور میں اسلامی مسائل اور متكلمانہ و سیاسی مباحث پر جو پُر زور مضامین ورسائل لكھے انھوں نے ہندوستان كے اسلام پسند حلقہ میں بڑی مقبولیت حاصل كی اور ان سب لوگوں كو ان كی ذات كی طرف متوجہ كر دیا جو اسلام كے اقتدار اور غلبہ كے خواہشمند اور موجودہ صورتِ حاصل سے بے چین تھے، اس تأثر كے نتیجہ میں جماعتِ اسلامی كا وجود عمل میں آیا اور جن جن لوگوں كو ان كے قلم و فكر نے متأثر كیا تھا، وہ جمع ہو گئے، پاكستان ببنے كے بعد قدرتی طور پر جماعت كی قیادت وہاں منتقل ہوگئی جو اسلامی فكر كی اشاعت و نفاذ كے لیے زیادہ موزوں میدان تھا، تو ہندوستان و پاكستان كے ایك بڑے دینی حلقہ كو بعض فقہی و كلامی مسائل میں مولانا كی تحقیق، یا طرز سے اختلاف ہونے كی بنا پر، اور كچھ جماعت كی آخر میں عملی سیاست و انتخابات میں حصہ لینے كی وجہ سے اور كچھ اس كے خلاف ان تمام عناصر كے متحد ہوجانے كے سبب سے جن كو اس كے اسلامی نظام اور اسلامی دستور كے نعرہ میں مفاد اور اپنا سیاسی مستقبل خطرہ میں نظر آتا تھا، جماعت كو شدید بیرونی مخالفتوں اور بعض مرتبہ اندرونی انتشار كا سامنا كرنا پڑا، اور بعض اوقات جماعت كے صفِ اول كے ذمہ داروں میں اختلاف پیدا ہوا اور ان میں سے متعدد ایسے اشخاص نے جو جماعت كے معماروں اور اس كے فكری رہنماؤں میں شمار كیے جاتے تھے، اس سے كنارہ كشی اختیار كر لی، دوسری طرف حكومت نے اس كی راہ میں ایسی ركاوٹیں پیدا كردیں كہ جن سے اس كی كو اپنی دعوت كی توسیع میں سخت دشواریاں پیش آئیں۔
جماعت كو اپنی ان سیاسی سر گرمیوں اور تنظیمی كاموں كی وجہ سے بھی اس علمی و تحقیقی