جواب:خوردن قریب بحرام است بشرطے کہ نیت نذرلغیراللہ باشد۔ ملخصاً۔2
بعض لوگ ’’فتاویٰ عزیزی‘‘ کی بعض عبارات سے اپنی بدعات پربزعم خود استدلال کرتے ہیں اور فتاویٰ کی بعض عبارات کو اپنے دعاوی کے ثبوت میں پیش کرتے ہیں۔ ان لوگوں کو ان مذکورہ بالا عبارات پر بھی ٹھنڈے دل سے غور کرنا چاہیے کہ حضرت شاہ صاحب ؒ ایصالِ ثواب کے لیے مہینہ اور دنوں کے معیّن کرنے کو کس طرح مخالف سنتِ اورحرام ناروا فرما رہے ہیں۔
فائدہ:بعض لوگ کہا کرتے ہیںحضرت امام حسین ؓ کی شہادت پرحزن وغم کے اظہار کے لیے سروغیرہ پرمٹی ڈالنا توحدیث سے ثابت ہے، جیساکہ حضرت امِ سلمہ ؓ کی اس روایت میں ہے:
حدثني سلمی قالت: دخلت علی أم سلمۃ ؓ وھي تبکي، فقلت: ما یُبکیکِ؟ قالت: رأیت رسول اللّٰہ ﷺ - تعني في المنام - وعلٰی رأسِہٖ ولحیتہٖ التراب، فقلت: ما لک، یارسول اللّٰہ؟ قال: شھدتُّ قتل الحسین آنفًا۔
سو اس کے متعلق اول تویہ گزارش ہے کہ یہ واقعہ خواب کا ہے اورخواب میں یہ ضروری نہیں ہوتاکہ ہر واقعہ اپنی حقیقت پر ہی نظرآئے۔ بلکہ واقعات اکثراپنی صورتِ مثالیہ میں نظر آتے ہیں اور اسی لیے وہ محتاجِ تعبیرہوتے ہیں۔ لہٰذا اس خواب میں جو راسِ مبارک اور لحیۂ مبارک پرمٹی نظر آئی ہے اس سے مراد حزن تھا، یہ مٹی اس حزن کی صورتِ مثالیہ تھی جس کے پردہ میں حزن مستور تھا، تو اس سے خاک ڈالنے کاجواز کہاں سے معلوم ہوا، البتہ اس سے حزن کا ثبوت ہوتاہے اور اس کاکسی کو انکار نہیںہے، امام عالی مقام کی شہادت موجبِ غم اورسببِ حزن ہے۔ تو اب اس خواب اور اس کی تعبیر کاحاصل یہ ہوا کہ حضرت امِ سلمہ ؓ نے حضور ﷺ کو شہادتِ امام حسین ؓ پرمغموم و محزون دیکھا۔ سراور لحیہ پرمٹی دیکھنے سے مراد غمگین و حزین ہوناہے، اس سے سروغیرہ پرخاک وغیرہ ڈالنے کا جواز نکالنا بالکل غلط اور عالمِ رئویا کی حقیقت سے نا واقفی کی دلیل ہے۔ پھر یہ کہ خاک ڈالنا اور بات ہے اور خاک کا ازخود پڑجانا اور بات ہے۔ خواب میں تو خاک پڑی ہوئی نظرآئی جو کہ اکثرمسافر کے بدن پرطولِ مسافت کے قطع کرنے کی وجہ سے پڑجاتی ہے، اس سے یہ کہاں لازم آیاکہ اپنے بدن پرقصداً خاک ڈالنا جائز ہے؟ اس روایت کاصحیح مطلب معلوم ہوجانے کے بعد اس روایتِ امِ سلمہ ؓ کے متعلق اس جواب دینے کی ضرورت نہیں رہتی کہ شہادت حسینؓ کے موقع سے قبل ۵۹ھ میں حضرت امِ سلمہ ؓ کا انتقال ہوچکا تھا اوریہ واقعۂ شہادت ۶۱ھ کا ہے اور اس روایت میں شھدت قتل الحسین آنفًا کے الفاظ موجود ہیں، توجب امِ سلمہؓ کاانتقال واقعۂ شہادت سے قبل ہوچکاتھا توپھر اس روایت میں شہدت قتل الحسین آنفًا کاکیامطلب ہوگا؟ اس لیے کہ اوّل توامِ سلمہؓ کی روایت کے موافق ایک روایت عبداللہ بن عباس ؓ سے ’’مشکوٰۃ شریف‘‘ میں بھی منقول ہے۔ دوسرے حضرت امِ سلمہ ؓ کی