کوبوسہ دینے کی نذر مانی تھی، ماں باپ کی قبر کا بوسہ لینے کے لیے فرمایا تھا اور قبرمعلوم نہ تھی تو لکیر کھینچ کربوسہ لینے کاحکم فرمایا تھا۔ اس روایت کو فرضی قبروں اوردوسری بدعات کے جواز پردلیل بناتے ہیں۔ مگر یہ حدیث ہرگز صحیح نہیں بلکہ جعلی اور موضوع ہے اوراس میں شیعی راوی ہے۔
بعض جاہل کہتے ہیں کہ آںحضرت ﷺ نے فتح مکہ کے موقع پرحضرت ابراہیم ؑ کی تصویر کو توڑا نہیں بلکہ دفن کردیا تھا۔ مگر دفن کرنے کا ثبوت کوئی نہیں ہے۔ اور اگر زمانۂ جاہلیت کے قریب ہونے کی وجہ سے تالیفِ قلوب کے لیے اس کو دفن ہی کرادیا گیا ہو تو پھر بھی جب آںحضرت ﷺ نے اس کو باقی و قائم نہ رکھا بلکہ اس کو دفن کرکے علیحدہ کردیا تو آں حضرت ﷺ کی ناخوشی اورناراضگی تصویر کشی کے متعلق معلوم ہوگئی۔
اگرتصویر کشی کو آں حضرتﷺ پسند فرماتے توحضرت ابراہیم ؑ کی تصویر بطورِ تبّرک ضرورباقی اور قائم رکھتے اس کو دفن بھی کیوں کرتے۔ اس سے ثابت ہواکہ تصویر کشی ناجائز ہے اور جو تصویر پہلے سے بھی بنی ہوئی ہو اس کو بھی علیحدہ کردو۔ اگرچہ وہ کسی متبرک اور اولو العزم پیغمبر کی ہی تصویر کیوں نہ ہو۔ عجب تماشہ ہے کہ یہ حدیث تصویر بنانے کے لیے سندِ جواز ہوسکتی ہے؟ اس سے تو زمانۂ جاہلیت کی بنی ہوئی ایک معظم شخصیت کی تصویر رکھنے کابھی ناجائز ہونا ثابت ہوتاہے۔
اس جگہ وہ حضرات بھی غور فرمائیں جنھوں نے اپنے پیروں اور بزرگوں کی تصاویراور تماثیل کو بطور تبرک اپنے عبادت خانوں کی زینت بنایا ہواہے۔ اور بعض لوگ جویہ کہتے ہیں کہ حضرت علیؓ نے اپنی بہت سی قبریں بنانے کی وصیت کی تھی تو نقلی قبریں بنانا جائز ہوئیں۔ یہ بالکل غلط اور حضرت علیؓ پربہتان ہے۔ صحیح سندسے کسی کتاب میں یہ روایت نہیں ہے بلکہ کتبِ شیعہ میں تو حضرت علیؓ سے دوبارہ قبربنانے اور تمثالی تصویر بنانے کی ممانعت منقول ہے۔
’’من لا یحضرہ الفقیہ‘‘ میں ہے:
من جدّد قبرًا ومثّل مثالاً فقد خرج عن الإسلام۔
جس نے کسی قبر کو پھر سے بنایا یا کوئی تمثال (تصویر) بنائی تووہ ضرور اسلام سے نکل گیا۔
اور جوسخت جاہل ہیں وہ کہاکرتے ہیں: قرآن نقل ہے، مسجد نقل ہے، اور کعبہ نقل ہے۔ ان کے کلام کا سخت واہی اور بودا ہونا ظاہر ہے کیوں کہ قرآن کو حضرت جبرئیل ؑ لکھاہوا لے کر نہیں اُترتے تھے جو ان مصاحف کو اس کی نقل کہاجاتا۔ مسجد و کعبہ آپ اصل ہیں نقل کسی کی نہیں۔
البتہ اگرکوئی مکہ مکرمہ کے علاوہ کسی مقام پرکعبہ معظمہ کی نقل اتارکر فرضی کعبہ کے ساتھ وہی معاملات کرنے لگے جو کعبہ معظمہ کے ساتھ کیے جاتے ہیں تووہ بھی اسی طرح ممنوع ہے جس طرح روضۂ امام حسین ؓکی نقل اتار کر اس کے ساتھ