کردیتا ہے (صدقۂ فطر ادا کرنے کی وجہ سے) اور تم میں جو فقیر ہو (اور پھر بھی صدقۂ فطردے دے) تو اللہ تعالیٰ اس کو اس کے دینے سے بھی زیادہ عطا فرما دیتا ہے ۔1
اور ابن عبا س ؓ نے فرمایاہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صدقۂ فطر کو فرض کیا ہے، روزے کو بے فائدہ اور فحش باتوں سے پاک کرنے کے واسطے اور مساکین کو کھلانے کے واسطے ۔2
اور ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صدقۂ فطر کا ایک صاع مقرر فرمایا ہے کھجور سے، یا ایک صاع جو سے، اور حکم دیا ہے کہ وہ ادا کیا جاوے نماز (عید) میں جانے سے پیشتر۔3
پہلی روایت سے معلوم ہوچکا ہے کہ گیہوں نصف صاع دی جاتی ہے، کشمش بھی نصف صاع واجب ہے۔ اگر کوئی شخص علاوہ ان چار چیزوں کے (یعنی گندم، کشمش، تمر، جو) کے دینا چاہے تو قیمت کا اعتبار ہے۔ پس نصف صاع گندم کی، یا ایک صاع جو کی جو قیمت ہو اتنی قیمت کے چاول وغیرہ دیے جاویں، اور صاع دو سو تہتر تولہ کا ہوتا ہے اور نمازِ عید سے پیشتر صدقۂ فطرکا ادا کرنا مستحب ہے، اگر بعد میں دیاجائے تب بھی جائزہے ۔
اور آںحضرت ﷺ عید اور بقر عید کے روز عیدگاہ میں تشریف لے جاتے۔ پس اولاً نماز پڑھتے، پھرلوگوں کی طرف منہ کرکے کھڑے ہوجاتے، اور لوگ صف باندھے بیٹھے رہتے، پس آپ خطبہ پڑھتے۔4
فائدہ:نماز کے بعد خطبہ میں خاموش بیٹھے رہنا واجب ہے ۔پس جو لوگ شور و غل مچاتے ہیں وہ سخت گناہ گار ہوتے ہیں۔ اور اسی طرح جو لوگ خطبہ چھوڑ کرچل دیتے ہیں وہ بھی بُرا کرتے ہیں۔ اور جو لوگ بیٹھتے ہیں وہ بھی صف کا لحاظ نہیں رکھتے حالاں کہ صف باندھے رہنا چاہیے۔ البتہ اگر کوئی شخص بیچ میں سے اُٹھ کر چل دیا، اس واسطے صف ٹوٹ گئی ہو تو ان بیٹھنے والوں کو گناہ نہ ہوگا بلکہ جوچلاگیا ہے یہ صف توڑنا اس کافعل ہے۔ واللّٰہ أعلم۔
اور آںحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایاہے کہ جس شخص نے رمضان کے روزے رکھے پھر اس کے بعد چھ روزے شوال کے رکھے تو ایسا ہوگیا جیسا کہ ہمیشہ (یعنی سال بھر) روزے رکھے۔ 5
فائدہ:اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک نیکی کے بدلہ میںدس نیکیاں ملتی ہیں، پس رمضان کے روزے رکھنے سے دس ماہ کے روزوں کا ثواب مل چکا تھا۔ چھ روزے اور رکھے تو بقیہ دوماہ کا ثواب حاصل ہوگا۔
اور حضور ﷺ عیدین کے خطبہ میں تکبیر بکثرت پڑھاکرتے تھے۔1
اور ارشاد فرمایاحق تعالیٰ شانہ نے: بے شک نجات پائی اس شخص نے جس نے زکوٰۃ دی (یعنی صدقۂ فطر ادا کیا) پھر اللہ کا نام لیا (یعنی تکبیرپڑھی) پھر نماز پڑھی۔