مقصود نہیں رہتاہے، خیال ہوجاتاہے کہ اگراب کے نہ کیا تولوگ کہیں گے کہ اب کی خست اور ناداری نے گھیر لیاہے ۔اس الزام کو رفع کرنے کے لیے جس طرح بن پڑتاہے مر مار کر کرتاہے۔ ایسی نیت سے صَرف کرنامحض اسراف وتفاخرہے جس کاگناہ ہونا بارہا مذکور ہوچکا ہے۔ کبھی ایسا بھی ہوتاہے کہ اس کے لیے قرض سودی لینا پڑتا ہے، یہ جداگناہ ہے ۔
۶۔جولوگ مستحقِ اعانت ہیں ان کو کوئی بھی نہیںدیتا یا ادنیٰ درجہ کا پکا کر ان کو دیا جاتا ہے، اکثر اہلِ ثروت و برادری کے لوگوں کوبطورِمعاوضہ کے دیتے لیتے ہیں اور نیت اس میں یہی ہوتی ہے کہ فلاں شخص نے ہمارے یہاں بھیجاہے اگر ہم نہ بھجیں گے تو وہ کیا کہے گا۔ غرض اس میں بھی ریا وتفاخر ہوجاتا ہے۔
۷۔ بعض لوگ اس تاریخ میںمسور کی دال ضرور پکاتے ہیں ، اس ایجاد کی وجہ آج تک معلوم نہیں ہوئی ،لیکن اس قدر ظاہر ہے کہ مؤکد سمجھنا بلاشک معصیت ہے۔ یہ تو کھانے پکانے میں مفاسدایجاد کرتے ہیں، ان کے علاوہ آتش بازی کی رسم اس شب میں شایع ہے ۔اس کی نسبت بابِ اوّل میں بیان ہوچکاہے حاجتِ اِعادہ نہیں ۔تیسرے زیادتی اس میںیہ کی گئی ہے کہ بعض لوگ شب بیداری کے لیے فرائض سے زیادہ اس میں لوگوں کو جمع کرنے کااہتمام کرتے ہیں، ہر چند کہ اجتماع سے شب بیداری سہل تو ہوجاتی ہے مگر نفلی عبادت کے لیے لوگوں کو ایسے اہتمام سے بلانا اور جمع کرنا یہ خود خلافِ شریعت ہے جیسا کہ اسی باب کی فصلِ اوّل میں بیان ہوچکا ہے۔ البتہ اتفاقاً کچھ لوگ جمع ہوگئے اس کا مضایقہ نہیں ۔
۸۔بعض لوگوں نے اس میں برتنوں کابدلنا اور گھر لیپنا اور خود اس شب میں چراغوں کازیادہ روشن کرنا عادت کرلی ہے۔ یہ رسم بالکل کفارکی نقل ہے اور حدیثِ تشبہ سے حرام ہے۔
چوںکہ حضرت والاآتش بازی کابیان بابِ اوّل کی فصل سوم میں تحریر فرماچکے ہیں اس واسطے دوبارہ اس کو تحریر کرنے کی حاجت نہ تھی مگر اس جگہ تتمیمِ فائدہ کی غرض سے اس رسم کے رد کو ضروری سمجھ کر ’’ما ثبت بالسنۃ‘‘سے کچھ مضمون لکھاجاتا ہے جو خاص طور پر حضرت شیخ عبدالحق صاحب محدث دہلوی ؒ مؤلفِ ’’ ما ثبت بالسنۃ‘‘ نے شب ِبراء ت میں آتش بازی کا بے ہودہ مشغلہ کرنے والوں کے متعلق تحریر فرمایا ہے۔ وہو ہٰذا:
اور بدعتِ شنیعہ میں سے وہ رسم ہے جس کا اکثر بلادِہندمیں لوگوں نے رواج دے رکھاہے ،یعنی چراغ جلانااور ان کو مکانوں اور دیواروں پر رکھنا اور اس پرفخر کرنا اور آتش بازی کے ساتھ لہو و لعب کے لیے جمع ہونا۔کیوںکہ یہ وہ امرہے جس کی معتبر کتابوں میں کوئی اصل نہیں بلکہ غیر معتبر کتابوں میں بھی نہیں، اور کوئی ضعیف اور موضوع روایت تک بھی اس کے بارے میں وارد نہیں ہوئی اور نہ اس کا بلادِہندکے سوا کسی ملک میں رواج، نہ حرمین شریفین میں(زادہما اللّٰہ تعالٰی تعظیمًا وتشریفًا) اور نہ ان کے سوا عرب کے دیگر حصص میں اور نہ بلا دِ عجم میں، سوائے ہندوستان کے، بلکہ ممکن ہے اور یہی ظنِ غالب ہے کہ ہندوئوں کی رسم دیوالی سے اس رسم کولیاگیا ہے کیوںکہ ہندوستان میں عموماً