ذریعہ کسی چیز کا صرف اثر ہی پہنچ سکتا ہے جوہرِ شے نہیں پہنچ سکتا اور مفسدِ صوم جوہرِ شے کا بذریعۂ منفذ پہنچنا ہے۔
علامہ شامی ؒ فرماتے ہیں :
(قولہ: وإن وجد طعمہ في حلقہ) أي طعم الکحل أوالدھن۔ کما في ’’السراج‘‘۔ وکذا لو بزق فوجد لونہ في الأصح۔ ’’بحر‘‘۔ قال في ’’النھر‘‘:لأن الموجود في حلقہ أثر داخل من المسام الذي ھو خلل البدن، والمفطر إنما ھو الداخل من المنافذ للاتفاق علٰی أن من اغتسل في ماء فوجد بردہ في باطنہ أنہ لا یفطر۔1
اور ’’ہدایہ‘‘ میں ہے:
لأنہ لیس بین العین والدماغ منفذ، والدمع یترشح کالعرق، والداخل من المسام لا ینافي، کما لو اغتسل بالماء البارد۔2
اور اس کے حاشیہ میں ہے:
لأنہ لیس بین العین والدماغ منفذ فما وجد إنما ھو أثرہ لا عینہ۔3
اس جگہ اس مسئلہ پر بھی تنبیہ کرنا ضروری معلوم ہوا جو بعض لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ وہ روزہ کی حالت میں آنکھ کے اندر تر دوا کے ڈالنے کو منع سمجھتے ہیں، یہ غلط ہے۔ آنکھ میں تر یا خشک کسی قسم کی دوا روزہ کے لیے مفسد نہیں۔ کیوں کہ آنکھ میں دوا ڈالنے سے دماغ میں نہیں پہنچتی۔ اس لیے کہ حسبِ تصریحاتِ فقہا آنکھ اور دماغ کے درمیان کوئی منفذ نہیں ہے۔
واللّٰہ عالم، وعلمہ أتم وأحکم۔
وھٰھنا تمت الرسالۃ۔ والحمد للّٰہ الھادي في کل مقالۃ، العاصم من کل غوایۃ وضلالۃ في البدایۃ والنھایۃ، وصلی اللّٰہ تعالٰی علٰی أفضل المخلوقات سیّدنا ومولانا محمد سیّد الکائنات وأکرم الموجودات، وعلٰی اٰلہٖ وأصحابہ صلاۃً تسبق الغایات، علی ید الأحقر الأفقر إلی اللّٰہ الغني المدعو بــ عبد الشکور الترمذي عفي عنہ ذنبہ الجلي والخفي۔
وھذا العبد الضعیف لیس في تحریر ھٰذہ العجالۃ وتسوید ھذہ الرسالۃ إلا کالقلم بین أصبعین والمتحرک علٰی أثر عین، وھي من إفاضات العلامۃ الفھامۃ وبرکات حبر الشریعۃ وخضر الطریقۃ شیخنا الفاضل المحدث الکبیر والفقیہ الخبیر الجامع للعلم المعقول والمنقول مولانا ظفر أحمد العثماني التہانوي، لا زالت شموس فیوضھم بازغۃ وبدور إقبالھم طالعۃ، ولا زلنا منغمسا في بحار لطفھم ومقتبسًا من أنوار فیوضاتھم، متّعنا اللّٰہ تعالٰی بطول بقائہ ودوام حیاتہ۔ في یوم الاثنین سبعۃ وعشرین من شھر رجب المرجب سنۃ خمس و ثمانین بعد ثلاث مائۃ وألف من الھجرۃ النبویۃ، علٰی صاحبھا ألف ألف سلام وتحیۃ۔