مسئلہ: معتکف کو کھانا پینا اور سونا مسجد کے اندر جائز ہے اور اگر اپنے یا عیال کے لیے کسی چیز کے خریدنے کی ضرورت ہو تو اس کا خریدنا بھی معتکف کے لیے مسجد کے اندر جائز ہے۔ بشرطے کہ وہ چیز مسجد سے باہر ہو اور تجارت کے لیے نہ خریدتا ہو۔ ’’درمختار‘‘ میں ہے:
وخص المعتکف بأکل وشرب ونوم وعقد احتاج إلیہ لنفسہ أو عیالہ فلو لتجارۃ کرہ أي تحریمًا؛ لأنھا محل إطلاقھم۔ ’’بحر‘‘۔
إحضار مبیع فیہ کما کرہ فیہ مبایعۃ غیر المعتکف مطلقًا للنھي، وکذا أکلہ ونومہ إلا لغریب۔’’أشباہ‘‘۔1
معتکف اور مسافر کے علاوہ دوسرے شخص کے لیے مسجد کے اندر کھانا پینا اور سونا مکروہ ہے۔ اسی طرح خرید و فروخت کرنا منع ہے۔ اس کی دلیل اوپر کی عبارت میں موجود ہے۔ البتہ عقدِ نکاح مسجد کے اندر مستحب ہے۔
صرح في ’’الأشباہ‘‘ وغیرہ بأنہ یستحب عقد النکاح في المسجد۔2
اگر مسجد میںکھانے پینے کی ضرورت پیش آجائے تو چاہیے کہ اعتکاف کی نیت سے مسجد میں داخل ہو کر اول ذکر اللہ یا نماز میں مشغول ہو پھر بعد میں اپنی ضرورت پوری کر لے۔
علامہ شامی تحریر فرماتے ہیں:
وإذا أراد ذلک ینبغي أن ینوي الاعتکاف فیدخل ویذکر اللّٰہ تعالٰی بقدر ما نوی، أو یصلي ثم یفعل ما شاء۔3
اس جگہ وہ حضرات بھی غور فرمائیں جو افطاری کے وقت اعتکاف کی نیت کے بغیر ہی مسجد کے اندر کھانے پینے میں مشغول ہوجاتے ہیں اور صرف افطار کرنے پر اکتفا نہیں کرتے۔
فائدہ: جب نماز پڑھنے مسجد میں جایا کریں تو بھی اعتکاف کی نیت کرلیا کریں۔ اس طرح مسجد میں نماز پڑھنے کے علاوہ اعتکاف کا ثواب بھی مل جاتا ہے۔ یہ ایک مفت کی عبادت ہے جس سے لوگ غافل ہیں اور چوں کہ یہ اعتکاف مستحب ہے اس میں ایسے شرائط نہیں ہیں جیسے اعتکافِ نذر اور اعتکافِ سنتِ مؤکدہ میں ہوتے ہیں، اس کے لیے وقت کی مقدار بھی معیّن نہیں ہے، ایک منٹ کے لیے بھی ہوسکتا ہے۔
مسئلہ: معتکف کے لیے بھی غیر معتکف کی طرح اصح یہی ہے کہ مسجد کے اندر ریح کا اخراج نہ کرے۔
لا یخرج فیہ الریح من الدبر، کما في ’’الأشباہ‘‘۔ واختلف فیہ السلف فقیل: لا بأس۔ وقیل: یخرج إذا احتاج إلیہ، وھو الأصح۔4
لیکن بوجہ حرج کے اگر غیر اصح قول پر عمل کرلیا جائے تو بھی گنجایش معلوم ہوتی ہے۔