اس پر (رزق میں) تمام سال۔3پس یہ دوباتیں تو کرنے کی ہیں: ایک روزہ رکھنا کہ وہ مستحب ہے۔ دوسرے مصارف میں کچھ فراخی کرنا (اپنی حیثیت کے موافق) اور یہ مباح ہے۔ اس کے علاوہ اور سب باتیں جو اس دن میں کی جاتی ہیں خرافات ہیں۔
لوگ اس دن میلہ لگاتے ہیں اور حضرات اہلِ بیت ؓ کے مصائب کا ذکر کرتے ہیں اور ان کا ماتم کرتے ہیں اور مرثیہ پڑھتے ہیں اور روتے چلّاتے بھی ہیں۔ اور بعض لوگ تو تعزیہ اور عَلم وغیرہ بھی نکالتے ہیں اور اُن کے ساتھ شرک وکفر کا معاملہ کرتے ہیں۔ یہ سب باتیں واجب الترک ہیں، شریعت میں اس ماتم وغیرہ کی کوئی اصل نہیں ہے بلکہ ان سب امور کی سخت ممانعت آئی ہے۔
تنبیہ: بعض لوگ اس روز مسجد وغیرہ میں جمع ہو کر ذکرِ شہادت وغیرہ سناتے ہیں۔ اس میں ثقہ لوگ بھی غلطی سے شریک ہوجاتے ہیں، اور بعض اہلِ علم بھی اس کو جائز سمجھنے کی عظیم غلطی میں مبتلا ہیں۔ در حقیقت یہ بھی ماتم ہے، گو مہذّب طریقہ سے ہے کہ سینہ وغیرہ و حشی لوگوں کی طرح نہیں کُوٹتے، لیکن حقیقت ماتم کی یہاں بھی موجود ہے۔ واللّٰہ أعلم بالصواب۔
اور ارشاد فرمایا حق تعالیٰ شانہ نے: پس جس شخص نے ذرّہ کے برابر نیکی کی وہ اس کو دیکھ لے گا اور جس نے ذرّہ کے برابر برائی کی وہ اس کو دیکھ لے گا۔
چوںکہ حضرت حکیم الامّت مولانا تھانوی مُدَّ فُیُوْضُہُمْ نے ’’اصلاح الرسوم‘‘ میں منکراتِ مروّجہ کی نہایت عمدہ طریق پر تفصیل کے ساتھ اصلاح فرمائی ہے، اس واسطیـ’’ اصلاح الرسوم‘‘ باب سوم کی فصل سوم سے عشرئہ محرم کی رسومِ قبیحہ کا بیان لکھا جاتا ہے۔ یہ رسوم دو قسم کی ہیں: ایک وہ جو فی نفسہٖ حرام ہیں۔ دوسری وہ جو فی نفسہٖ مباح تھیں مگر فسادِ عقیدہ کے سبب حرام ہوگئیں۔ دونوں کو جداجدا بیان کیا جاتا ہے۔