بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
الْحَمْدُ لِلّٰہِ وَکَفٰی وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفیٰ
عاشورا
یعنی
محرم کی فضیلت اور منکرات مروجہ کی مذمت
ارشاد فرمایا رسول اللہﷺ نے کہ سب روزوں سے افضل رمضان کے بعد اللہ تعالیٰ کا مہینہ محرم ہے (یعنی اس کی دسویں تاریخ کو روزہ رکھنا رمضان کے سوا اور سب مہینوں کے روزے سے زیادہ ثواب رکھتا ہے)۔1 اور جب آںحضرتﷺ مدینہ میں تشریف لائے تو یہود کو عاشورا کا روزہ رکھتے ہوئے پایا۔ اس لیے آپ نے اُن سے فرمایا :یہ کیا دن ہے جس میں تم روزہ رکھتے ہو؟ انھوں نے کہا: یہ بڑا دن ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ ؑاور اُن کی قوم کو نجات عطا فرمائی اور فرعون اور اس کی قوم غرق ہوئی۔ پس موسیٰ ؑ نے اس کا روزہ بطورِ شکر کے رکھا تو ہم بھی اس کا روزہ رکھتے ہیں۔ پس ارشاد فرمایا رسول اللہ ﷺ نے: تو ہم زیادہ حق دار اور قریب ہیں موسیٰ ؑ کے تم سے۔ پھر حضور ﷺ نے اس کا روزہ رکھا اور (دوسروں کو) اس کے روزے کا حکم دیا۔2
ونیز ارشاد فرمایا رسول اللہ ﷺ نے: میں امید رکھتا ہوں حق تعالیٰ شانہ سے کہ عاشورا کا روزہ کفارہ ہو جاتا ہے اُس سال کا (یعنی اس سال کے چھوٹے گناہوں کا) جو اس سے پیشتر (گزرچکا) ہے۔3 اور حدیث شریف میں ہے کہ جب رسولِ خدا ﷺ نے روزہ رکھا اور اس کے روزہ کا حکم دیا تو انھوں نے (یعنی صحابہؓ نے) عرض کیا کہ یہ ایسا دن ہے جس کو یہود اور نصاریٰ معظّم سمجھتے ہیں۔ تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اگر میں آیندہ سال تک زندہ رہا تو نو۹ تاریخ کو (بھی) ضرور روزہ رکھوں گا۔4اور ارشاد فرمایا رسول اللہ ﷺ نے: روزہ رکھو تم عاشورا کا اور مخالفت کرو اس میں یہود کی اور (وہ اس طرح کہ) روزہ رکھو اس سے ایک دن پہلے کا یا ایک دن بعد کا (غرض تنہا عاشورا کا روزہ نہ رکھو، اس سے ایک دن پہلے کا یا بعد کا ملا لینا چاہیے)۔1
اور حدیث شریف میں ہے کہ عاشورا کا روزہ رمضان (کے روزے فرض ہونے) سے پیشتر (بطورِ فرضیت) رکھا جاتا تھا۔ پس جب رمضان (کے روزوں کا حکم) نازل ہوا تو جس نے چاہا (عاشورا کا روزہ) رکھا اور جس نے چاہانہ رکھا۔2 اور ارشاد فرمایا رسول اللہ ﷺ نے: جس شخص نے فراخی کی اپنے اہل و عیال پر خرچ میں عاشورا کے دن، فراخی کرے گا اللہ تعالیٰ