جماعت میں شامل ہوکر نماز کے بعد کھانے میں مشغول ہوں۔
مولانا عبدالحی صاحب لکھنوی نے حضرت رسولِ خدا ﷺ اور ابن عباسؓ اور ایک جماعت صحابہ ؓ سے افطار قبل الصلوٰۃ اور حضرت عمر و عثمان ؓ سے افطار بعد الصلوٰۃ کی روایات کی تطبیق میں اسی وجہ کو مستحسن فرمایا ہے۔ تحریر فرماتے ہیں:
وأما إذا أمکن الاقتصار علی نفس الإفطار بأکل تمرۃ أو بشرب قطرۃ ثم یصلي ویتعشی، فھٰذا جمع حسن ووجہ مستحسن۔1
اور چوںکہ روزہ دار کو اکثر افطار کے وقت کھانے کی طرف میلان ہوتا ہے اس وجہ سے اگر اقامتِ جماعت میں لوگوں کی رعایت کر کے کچھ تو قف کر لیا جایا کرے تو گنجایش معلوم ہوتی ہے اور یہ میلان تاخیرِ نماز کے لیے شرعاً عذر ہو سکتا ہے۔ ایسے وقت میں جب کہ طعام کی طرف میلان ہو نماز کو مؤخر کرنے میں کراہت نہیں ہے۔ قدرِ رکعتین تاخیر کی کراہت بلا عذر تاخیر کرنے کے ساتھ خاص ہے۔ علامہ شامی ؒ فرماتے ہیں:
أن ما في ’’القنیۃ‘‘ من استثناء التأخیر القلیل محمول علی ما دون الرکعتین، وأن الزائد علی القلیل إلی اشتباک النجوم مکروہ تنزیھًا وما بعدہ تحریمًا إلا بعذر۔ 2
اور عذر کی مثال میں ’’درمختار‘‘ نے سفر اور کونہ علی أکل کو بیان فرمایا ہے۔ اس کی تائید میں شامی نے فرمایا ہے:
أي لکراھۃ الصلاۃ مع حضور طعام تمیل إلیہ نفسہ، والحدیث ’’إذا أقیمت الصلاۃ وحضر العَشاء فابدؤوا بالعَشاء‘‘۔رواہ الشیخان۔ 3
تو معلوم ہوا کہ جس وقت طعام کی طرف طبیعت کا میلان زیادہ ہو اور کھانا حاضر بھی ہو اس کو شرعاً تاخیرِ نماز کے لیے عذر مانا گیا ہے۔ اس لیے اگر جماعت کی اقامت میں ہی کچھ توقف کر کے لوگوں کو مہلت دی جائے کہ ان کے میلان الی الطعام کی شدت میں کسی قدر کمی آجاوے اور وہ کچھ کھاپی لیا کریں تو اس کی بھی گنجایش ہے، مگر یہ صورت تو بہت ہی قبیح ہے کہ جماعت کے کھڑے ہوجانے کے بعد لوگ نماز کی پروا نہیں کرتے اور مسجد کے اندر ہی کھانے پینے میں مشغول رہتے ہیں۔ البتہ اس توقف اور مہلت میں بھی اعتدال سے کام لیا جائے۔ اقامت میں اتنا وقفہ نہ کیا جائے کہ نمازیوں کو جماعت کے انتظار میں تکلیف ہونے لگے۔ بعض ائمہ افطاری کے بعد آرام کرنے لگ جاتے ہیں، لوگوں کو ان کے انتظار میں تکلیف ہوتی ہے، اس لیے ایسا نہ کرنا چاہیے۔ افطاری کے وقت کھانے پینے میں تقلیل اور اختصار ہی مقصود ہے تا کہ نماز مغرب جلدی ادا ہوسکے۔حدیث انسؓ جو اوپر گزر چکی ہے اس میں بھی اس کی طرف اشارہ ہے۔
قطب الارشاد حضرت علامہ گنگوہی ؒ کی املائی تقریر میں ہے:
قولہ: ’’رطبات وتمیرات وحسوات‘‘ کل ذٰلک بتنکیر اللفظ وتصغیرہ إشارۃ إلی تقلیل ما یؤکل حینئذ مسارعۃ إلی أداء الصلاۃ۔1