کو تقسیم کیا جائے، اس قدر میں روزہ افطار کرانے کا ثواب نہیں ملے گا۔ حدیث شریف میں پاگلوں اور کم عمر بچوں کے مسجد میں داخل کرنے اور مسجد میں آوازوں کے بلند کرنے اور شور و غل کرنے کی ممانعت آئی ہے۔ البتہ بچوں کو نماز کی عادت ڈالنے کے لیے جب وہ سات سال کی عمر کے ہوجائیں مسجد میں آنے کی اجازت ہے مگر اس وقت بھی خیال رکھا جائے کہ ان کے پاؤں وغیرہ پاک ہوں اور مسجد کے آداب و احترام کے ساتھ وہ مسجد میں آئیں۔ وارثوں اور سرپرستوں کے ذمہ ضروری ہے کہ ایسی عمر کے بچوں کو جب وہ نماز کے لیے آویں تو آدابِ مسجد کی تعلیم دیں اور مسجد میں جانے کا ان کو طریقہ سکھلاویں۔
فائدہ:اگر روزہ افطار کرنے کے وقت کئی شخصوں کے دیے ہوئے کھانے کو استعمال کیا جائے تو لوگ پوچھا کرتے ہیں کہ روزہ کھلوانے کا ثواب کس کوملے گا؟ تو قواعد سے بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ چوںکہ طعام کے دینے والوں کی سب کی ہی نیت روزہ کھلوانے کی ہوتی ہے، اس نیت کی وجہ سے افطار کرانے کا ثواب بھی سب کو ہی ملے گا۔ ویسے بھی روزہ کھلنے کے وقت جو کچھ کھایا پیا جاتا ہے، وہ سب بحکم افطار ہے۔ اگرچہ حقیقی افطار کسی کے ایک لقمہ سے ہی حاصل ہو جاتا ہے اور ممکن ہے جس کے طعام سے یہ حقیقی افطار حاصل ہوا ہو اس کو کچھ زیادہ ثواب بھی عطا کیا جاوے۔ واللّٰہ أعلم۔
اس سے معلوم ہوا کہ اگر کسی کے کھانے کو افطاری کے وقت استعمال بھی نہ کیا گیا ہو بلکہ افطار کے بعد اس کو استعمال کیا گیا ہو تو بھی افطاری کے لیے کھانا بھیجنے والوں کو نیت کی وجہ سے افطار کرانے کا ثواب ملے گا۔
تنبیہ:بعض لوگ افطاری میں اس قدر مشغول ہوجاتے ہیں کہ ان سے نماز مغرب کی رکعت تک فوت ہوجاتی ہے اور بعض حضرات تو ایسے وقت نماز ادا کرتے ہیں کہ جماعت ختم ہو چکتی ہے اور امام کی تکبیرِ تحریمہ تو کسی اللہ کے بندہ کو افطاری کے بعد نصیب ہوتی ہوگی۔
افطاری کی خاطر نماز کی جماعت کے تاکیدی حکم سے غفلت اور بے پرواہی برتنا کس قدر بُرا اور مذموم ہے، وہ ظاہر ہے۔ اور خاص طور پر رمضان المبارک کے مہینہ میں جماعت کی فضیلت سے محروم رہنا کتنی افسوس ناک بات ہے۔ اس ماہِ مبارک میں تو جماعت کا خاص اہتمام کرنا چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ کوئی نماز بغیر جماعت کے ادا نہ ہو۔ اس لیے بہتر طریقہ یہی ہے کہ افطار کے وقت سنت کے موافق مختصر طریقہ پر کھجور یا پانی کے گھونٹ سے روزہ کھول لیا جائے۔ پھر